• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند دن پہلے میں نے ایک تحریر اپنے کالم میں منقول کی ۔ یہ تحریر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہوتی مجھ تک بذریعہ واٹس ایپ پہنچی تھی ۔ عنوان تھا ’’اگر غالب سی ایس پی افسر ہوتے ‘‘۔ اس وقت مجھے علم نہیں تھا کہ یہ کس کی تحریر ہے سو میں نے اپنے کالم میں چھاپ دی اور غائبانہ طور پر اس لکھاری کو داد بھی دی ۔ اب کسی نے مجھے بتایا ہے کہ یہ قراۃ العین نامی خاتون کی تحریر ہے جن کا اپنا تعلق سول سروس سے ہے ۔ یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ سول سروس میں ایسے با کمال لکھاری موجود ہیں ، یہ ایک خوش آئند بات ہے ۔ قراۃ العین جیسے لکھار ی اگر اپنی یہ تحریریں جمع کرکے کتابی شکل میں شائع کردیں تو پڑھنے والوں کو ایک خوبصورت کتاب میسر آجائے گی ۔ پاکستان کے سوشل میڈیا پر اس قدر ذہین اور تخلیقی جملے پڑھنے کو ملتے ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے ۔ یہاں کوئی واقعہ ہوا اور ادھر سوشل میڈیا پر جملے بازی اور تازہ ترین لطیفوں کی برسات شروع۔ بات صرف لطیفوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ سیاسی رہنماؤں ، مذہبی پیشواؤں اور ہمارے سماجی رویوں پر لوگ ایسی ایسی پھبتیاں کستے ہیں کہ اچھے سے اچھا مزاح نگار ان کے آگے پانی بھرتا نظر آتا ہے ۔یکم رمضان کو ٹویٹر پر ایک جملہ پڑھا ’’شیطان کو قید کر دیا گیا ہے ۔۔۔فلاں اینکر قائم مقام شیطان مقرر ۔ ‘ ‘ اس جملے کا اصل مزا اینکر کا نام لکھنے میں ہے جو بوجوہ نہیں لکھا جا سکتا ، آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔ نہ جانے اس جملے کا خالق کون ہے ! اسی طرح یار لوگو ں نے ڈونلڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کی صدارتی مہم کے دنوں میں ایسے شاندار جملے تخلیق کئے کہ اگر امریکیوں کو پتا چلے تو وہ بھی سر دھننے لگ جائیں ۔ کسی ستم ظریف نے ہیلری اور ٹرمپ کی تصاویر میں تبدیلیاں کرکے انہیں پاکستانی لباس پہنا دئیے اور پھر انہیں ایک ایسے پوسٹر کی شکل دے دی جو بالعموم ہمارے ہاں الیکشن کے دنوں میں دیواروں پر نظر آتے ہیں جیسے ’’آپ کے ووٹ کا طلبگار ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
سوشل میڈیا کے ان مزاح نگاروں کو شاید اپنے اس ٹیلنٹ کا اندازہ ہی نہیں ۔ یہ لوگ اس قدر تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہیں کہ ان کا مقابلہ کسی بھی اعلی پائے کے مزاح نگار سے کیا جا سکتا ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر گمنام ہیں اور ان کے جملے اور تحریریں یونہی وائرل ہو جاتی ہیں ۔ میں زیادہ تر فیس بک استعمال کرتا ہوں ، ٹویٹر کا استعمال مجھے نہیں آتا۔مگر میرے ایک دوست نے مجھے بتایا ہے کہ ٹویٹر پر ’’آم اچار ‘‘ اور ’’عادی ‘ ‘ نام سے جو اکاؤنٹ بنے ہیں وہ تازہ ترین حالات پر نہایت برجستہ اور اعلی تبصرے کرتے ہیں ۔ میں نے سنا ہے کہ ان میں سے ’’عادی ‘ ‘ کو تو پچھلے دنوں ایف آئی اے نے طلب بھی کیا تھا اور اس کا قصور اسے اب تک نہیں بتایا۔شاید یہ وہی پکڑ دھکڑ ہے جو اداروں کی تکریم کے نام پر ایف آئی اے نے شروع کر رکھی ہے ۔ اس ضمن میں میری چوہدری نثار صاحب سے درخواست ہے کہ اپنی اس پالیسی پر نظر ثانی کریں ۔ سوشل میڈیا پر جو لوگ بلا کسی ثبوت کے لوگو ں پرالزام لگاتے ہیں ، ان کی پگڑیاں اچھالتے ہیں اور غلیظ گالیاں بکتے ہیں ، ان کے خلاف ضرور کارروائی کریں مگر وہ نوجوان جو اپنے سیاسی اختلاف رائے کا شستہ انداز میں اظہار کرتے ہیں ان کو اس درجہ بندی سے بالکل علیحدہ رکھیں۔
اب قارئین کی نذر کچھ ایسے جملے جن کا خالق نا معلوم ہے اور وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے مجھ تک پہنچے ہیں :
وزیر داخلہ کی ایف آئی اے کو ہدایت ،وہ تمام اداکارائیں جن کے انگ انگ میں بجلی بھری ہے ان کو گرفتار کر کے قوم کو بجلی فراہم کی جائے۔
ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کا جواب،ایسا تو رمضان کے بعد ہی ہوسکتا ہے ابھی تو وہ سحری و افطار کے اوقات میں امت کو دین سکھانے میں مصروف ہیں۔
پیپلزپارٹی نے کراچی کا کچرا صاف نہیں کیا مگر میرے کپتان نے پیپلز پارٹی کا سارا کچرا صاف کر دیا ہے۔
بیوی : تم مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو؟
شوہر:بہتر فیصد
بیوی: سو فیصد کیوں نہیں؟
شوہر:28فیصد جی ایس ٹی اشیائے تعیش پر عائد ہوتا ہے۔
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اچھے دوست پہلے ہفتے میں ہی افطاری کی دعوت دے دیتے ہیں۔
مولا ایک تو سارے ٹھنڈے ملک انگریزوں کو ہی دینے تھے اور اوپر سے وہ روزے بھی نہیں رکھتے۔
گوجرانوالہ کے بٹ صاحبان کے مطابق واشنگ مشین کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں بڑے پیمانے پر لسی بنائی جا سکتی ہے۔
وہ محبت میں وفا ڈھونڈتی رہی اور میں جگہ
رمضان کا چاند نظر آنے کے بعد اپنے اپنے چاند سے دور رہیں،پبلک سروس میسج،حلال کمیٹی
لوگ اس وقت بھی روزے رکھتے تھے جب بجلی ایجاد نہیں ہوئی تھی لہٰذا روزے رکھیں اور زیادہ ٹرٹر نہ کریں، منجانب واپڈا حکام
آدمی:جناب آپ صرف شادی شدہ افراد کو ہی ملازمت پر کیوں رکھتے ہیں۔
افسر:کیونکہ ان میں بے عزتی برداشت کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور گھر جانے کی جلدی بھی نہیں ہوتی۔
اگر شیطان کی بیوی ہوتی تو شاید وہ اتنا شیطان نہ ہوتا۔
اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والا عیسائی مزدور انتہائی بے چارگی سے اپنی بیوی سے کہنے لگا،دیکھ پریشان نہ ہو،مسلمانوں کا یہ مقدس مہینہ گزر جانے دے ساری چیزیں پھر سے سستی ہو جائیں گی۔
روزہ نہ لگنے کی دعا’’یااللہ مجھے روزہ نہ لگے،آمین‘‘
رمضان میں جو بنتا ہے سب مزے لے کر کھاتے ہیں،پاکستان بھی رمضان میں بنا۔
پرانے زمانے میں جب کوئی اکیلا بیٹھ کر ہنستا تھا تو لوگ کہتے تھے کہ اس پر کوئی بھوت پریت کا سایہ ہے۔آج کوئی اکیلے میں بیٹھ کر ہنستا ہے تو کہتے ہیں ’’مجھے بھی سینڈ کر دو‘‘
گورنمٹ ان دنوں ناہید اختر کی تلاش میں ہے جنہوں نے 1976میں ’’بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں‘‘گایا تھا۔گورنمنٹ انہیں132KV گرڈ اسٹیشن نندی پورمیں انسٹال کرنا چاہتی ہے۔برائے کرم ناہید اختر کی تلاش میں ہماری مدد کی جائے،عابد شیر علی
سب مطلب کی بات سمجھتے ہیں،کاش کوئی بات کا مطلب بھی سمجھے۔
اگر آپ کو ٹھیک سے نظر نہیں آتا تو کسی پر اندھا اعتماد کر کے دیکھ لیں وہ آپ کی ایسی آنکھیں کھولے گا کہ آپ کو دور دور تک ہر چیز صاف نظر آئے گی۔
یہ چند نمونے ہیں جو میرے موبائل میں بچ گئے ہیں ورنہ اس سے کئی گنا زیادہ شارپ جملے تھے جو میں حسب عادت ساتھ ساتھ ڈیلیٹ کرتا چلا جاتا ہوں تاہم آخر میں ایک جملے کا تذکرہ ضروری ہے اور وہ جملہ ہے’’معذرت کے ساتھ نوے فیصد صحافیوں کی پیدائش کا موجب مرحوم سلطان راہی کا یہ مشہور زمانہ ڈائیلاگ تھا’’باہر نکل اوئے بے غیرتا‘‘ یہ جملہ یقیناً نوے فیصد صحافیوں پر لاگو نہیں آتا کیونکہ میرے نزدیک جو صحافی ہیں ان کی بہت بڑی تعداد صحافت کے اصولوں کے مطابق فرائض منصبی ادا کرتی ہے البتہ یہ جملہ ان اینکرز پر خوب چسپاں ہوتا ہے جو صحافتی پس منظر نہیں رکھتے اور انہوں نے ٹی وی اسکرینوں کو اپنے ذہن کی غلاظتوں سے بھر دیا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ان میں دو تین اینکر ایسے بھی ہیں جو صحافتی پس منظر رکھتے تھے مگر اب وہ تجارتی پس منظر میں اپنے ’’فرائض‘‘انجام دیتے ہیں۔بہرحال یہ جملہ بہت مزے کا اور بہت تخلیقی ہے اوران تمام دوستوں کو اس سے لطف اٹھانا چاہیے جن پر یہ جملہ منطبق نہیں ہوتا۔



.
تازہ ترین