• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں نوازشریف اور عمران خان کی لڑائی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ان کی خاطر ایک دوسرے سے لڑنے والوں کی منطق سمجھ میں نہیں آتی ۔ کیونکہ طریق واردات کا فرق تو ہوسکتا ہے لیکن دونوں کی طرز زندگی اور سیاست میں فرق کرنا مشکل ہے ۔ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور دونوں اپنے اردگرد کھوٹے سکوں کو جمع کرکے اپنی اپنی سیاسی دکان لگائے ہوئے ہیں ۔بات دونوں غریب کی کرتے ہیں لیکن غریبوں سے دونوں دور بھاگتے ہیں۔ ایک رائے ونڈ کے شاہی محل میںباشاہوں کی طرح رہتے تھے اور دوسرے بنی گالہ میں عوام سے دور عالی شان محل میں شہزادوں کی طرح زندگی گزاررہے ہیں ۔مزاجاً دونوں بادشاہ ہیں ۔ میاں نوازشریف ہر قیمت پر اپنی وزارت عظمیٰ بچانا چاہتے ہیں اور عمران خان ہر قیمت پر اس کرسی پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں ۔ اول الذکر وزارت عظمیٰ کو بچانے کے عمل میں کسی بھی چیز بشمول ذاتی اور خاندانی عزت ،وفادار ساتھیوں یا پھر قومی اداروںتک کی قربانی دینے کو تیار ہیں اور ثانی الذکر اس کو پانے کے لئے اخلاقیات، تہذیب اورجمہوریت غرض ہر چیز قربان کرنے کو تیار ہیں ۔ اول الذکر صرف اور صرف اپنے خاندان سے مخلص ہیں اور باقی سب انسانوں کو مہرہ سمجھتے ہیں جبکہ ثانی الذکر صرف اپنی ذات سے مخلص ہیں اور رشتہ داروں سمیت اپنے وفاداروں کو بھی بھیڑ بکری سمجھتے ہیں۔ اولذکر کے ساتھ جس نے بھی وفا کی، جواب میں دغا کرکے انہوں نے قرض اتار دیا جبکہ خان صاحب کو جس نے بھی عزت دی ، جواب میں اسے بے عزت کرکے حساب چکا دیا۔ جمہوریت کا نام دونوں لیتے ہیں لیکن میاں نوازشریف خاندانی آمریت پر یقین رکھتے ہیں جبکہ عمران خان شخصی آمریت پر ۔ میاں نوازشریف سے اختلاف کرنے والا خواہ غوث علی شاہ کیوں نہ ہو، پارٹی میں نہیں رہ سکتا اورعمران خان سے اختلاف کرنے والا پارٹی صدر جاوید ہاشمی کیوں نہ ہو، اس جرات کے بعد ساتھ نہیں رہ سکتا ۔ میاں نوازشریف کے اقتدار کے دنوں کے دوست اور جبکہ اپوزیشن کے اور ہوتے ہیں جبکہ عمران خان کے دن کے ساتھی اور جبکہ رات کے اور ہوتے ہیں ۔ میاں نوازشریف عربوں سے جبکہ عمران خان ارب پتیوں سے مرعوب ہیں ۔ وہ عربوں کے ہاتھ کی گھڑی ہیں اور یہ ارب پتیوں کے ہاتھ کی چھڑی ہیں ۔ میاں نوازشریف بھی محسن کشی کے لئے مشہور ہیں اور عمران خان بھی اس معاملے میں ثانی نہیں رکھتے ۔ جنرل ضیاء الحق سے لے کر فاروق لغاری تک میاں صاحب نے جس جس کو سیڑھی بنایا ، پھر انہی کے درپے ہوگئے جبکہ عمران خان نے بھی ماجد خان ، حفیظ اللہ نیازی، جنرل پرویز مشرف ، جنرل اشفاق کیانی جیسے ایک ایک محسن کے ساتھ حساب برابر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ میاں نوازشریف پاکستان کے ذہین ترین انسان ہیں لیکن تاثر یہ دیتے ہیں کہ جیسے وہ بڑے سیدھے سادے ہیں ۔اسی طرح عمران خان کا شمار بھی پاکستان کے چالاک اور ذہین ترین سیاستدانوں میں ہوتا ہے لیکن انہوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ وہ بڑے کھرے انسان ہیں ۔ میاں نوازشریف کی ذہانت کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ انہو ں نے اپنے کاروبار کو فوجی جرنیلوں تک رسائی کے لئے ، پھر ان جرنیلوں کو سیاست میں وارد ہونے کے لئے اور پھر سیاستدان بننے کے بعد اسی سیاست کو ان جرنیلوں کو اپنا تابع بنانے کے لئے استعمال کیا ۔جرنیلوں کو چیلنج کرنے کے بعد کوئی سیاستدان زندہ نہیں نکلا ۔ اسی لئے بھٹو جیسا سیاستدان بھی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھا لیکن میاں صاحب کی ہوشیاری دیکھ لیجئے کہ امریکیوں اور سعودیوں کو استعمال کرکے وہ جرنیلوں کے پنجے سے زندہ نکلے اور پھر بغیر کسی قربانی اور محنت کے واپس لوٹ کر دوبارہ حکمران بنے ۔ عمران خان کی ذہانت کا اندازہ اس سے لگالیجئے کہ پہلے انہوںنے پوری ٹیم کی جیت صرف اپنے نام کردی ۔ پھر کرکٹ کی شہرت کو یہودی خاندان کی ارب پتی خاتون سے شادی کے لئے ، پھر اس شہرت کو اسپتال کے لئے اور پھراسپتال کو سیاست کے لئے استعمال کیا ۔ جب ان کو اندازہ ہوگیا کہ پاکستان میں اصل قوت فوج ہے تو پہلے پرویز مشرف اور اس کے بعد ان کے جانشینوں سے ساز باز کرنے لگے ۔ ان کی ذہانت کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ کبھی اس قوت سے ٹکرنہیں لی جو حقیقت میں فائدہ یا نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ ہر حاضر سروس جرنیل سے بنا کے رکھتے ہیں اور جو جوریٹائرڈ ہوتا ہے ، اس کی مخالفت کرکے اپنا نام بہادروں کی صف میں شامل کردیتے ہیں ۔ طالبا ن جب تک خطرہ تھے ، ان کے خلاف کبھی نہیں بولے لیکن جب طالبان کمزور پڑ گئے تو ان کے مخالف بن کر غازیوں کی فہرست میں اپنا نام درج کرلیا۔
تاثر ہے کہ محترم میاں نوازشریف ذاتی اور سیاسی معاملات میں انتہائی معصوم چہرے کے ساتھ بمع اہل و عیال جھوٹ بولتے ہیں جبکہ محترم عمران خان نہایت رعونت بھرے لہجے میں اپنے چمچوں کے ساتھ باجماعت جھوٹ بولتے ہیں ۔ میاں صاحب نے اپنے جیالوں کو اپنے چند اہل خانہ اور چند من پسند بیوروکریٹس کی قدم بوسیوں پر مجبور کیا جبکہ خان صاحب نے بھی اپنے متوالوں اور کئی سال سے ساتھ دینے والوں کوجہانگیر ترین ، مصطفیٰ کھر، پرویز خٹک اور اسی نوع کے دیگر سرمایہ داروں کے قدموں میںلابٹھایا ۔ غرض ایک ایک طریقے سے اپنے چاہنے والوں کو بے عزت کررہا ہے اور دوسرا دوسرے طریقے سے ۔ اداروں کا نام دونوں بہت لیتے ہیں لیکن دونوں اداروں کے یکساں دشمن ہیں ۔ میاں صاحب نیب وغیرہ کے ساتھ جو کچھ کررہے ہیں سب کے سامنے ہے۔ خان صاحب نے پختونخوا میں اپنے بنائے ہوئے احتساب کمیشن کا جو حشر کیا ،کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ ایک نے سپریم کورٹ پر حملہ کروایا تو دوسرے نے سپریم کورٹ کی عمارت پر گندے کپڑے ڈلوائے۔ ایک عدالت کو ڈراتے ہیں اور دوسرا اسے دھمکاتے ہیں ۔ یہ سب مشترکات اپنی جگہ لیکن کچھ لوگ یہ تاثر دیتے رہے کہ شاید مالی معاملات میں خان صاحب ،میاں صاحب سے مختلف ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ وہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر میاں نوازشریف کا کل مالی سرمایہ لندن میں ہے تو عمران خان صاحب کا کل خاندانی سرمایہ لندن میں ہے ۔ میاں صاحب ہر دوسرے ماہ اپنے مالی معاملات کا جائزہ لینے لندن جاتے ہیں تو خان صاحب ہر دوسرے ماہ خاندانی معاملات ، جس سے ان کے مالی بھی جڑے ہیںکو دیکھنے لندن جاتے ہیں ۔ میاں نوازشریف کے پاس لندن کی جائیداد کا منی ٹریل نہیں ہے تو عمران خان صاحب کے پاس پاکستانی جائیداد کا منی ٹریل نہیں ہے ۔
میاں صاحب اپنی صفائی میں قطری شہزادے کا خط لے آئے اور خان صاحب پشاوری شہزادے (جن کو خان صاحب نے کے پی حکومت میں مناصب دے کر نوازا ہے ) کا خط لے آئے ۔ میاں صاحب کو اب قطری شہزادے کی گواہی ہی بچاسکتی ہے جبکہ خان صاحب کو اب صرف یہودی ارب پتی گولڈ اسمتھ کی بیٹی کی گواہی بچا سکتی ہے ۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ فلاں نے فلاں کو رقم دی ، اس نے فلاں کو دی اور فلاں نے فلاں کو دی ۔ جس کی کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی اور خان صاحب کہتے ہیں کہ فلاں نے جمائما کو ، جمائما نے فلاں کو اور فلاں نے فلاں کو رقم بھیجی اور یہاں بھی کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ قوم کو یقین ہوگیا کہ معاملات میاں صاحب کے بھی صاف نہیں اور خان صاحب کے بھی نہیں۔ نوازشریف کو معصوم سمجھ رہے تو صرف دانیا ل عزیز اور طلال چوہدری سمجھ رہے ہیں جو کل تک پرویز مشرف کے مدح خواں تھے اور عمران خان کو معصوم سمجھ رہے ہیں تو صرف علیم خان اور فواد چوہدری سمجھ رہے ہیں جو کل تک پرویز مشرف کے ساتھی اور ترجمان تھے ۔ پیپلز پارٹی سمجھدار تھی چنانچہ وہ عدالتوں کا رخ کرنے سے روک رہی تھی لیکن میاں صاحب اور خان صاحب اپنی ذاتی اور سیاسی لڑائی میں سپریم کورٹ کو گھسیٹ لائے ۔ وہ اپنے اپنے گندے کپڑے دھونے کے لئے سپریم کورٹ کی لانڈری میں لے گئے ۔اب مسئلہ یہ ہے کہ ان دونوں کی غلط کاریوں کے تعفن میں عدالت کا سانس لینا مشکل ہوگیا ہے ۔ بدبو کی وجہ سے اس کا دم گھٹ رہا ہے ۔ اب دونوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ یا دونوں اپنے اپنے طریقے سے سپریم کورٹ پر حملہ کردیں اور شاید کررہے ہیں یا پھر یہ کہ قانون کے مطابق ان دونوں کو سزا ہوجائے ۔عدالت کے پاس بھی اب دو راستے ہیں ۔ ایک یہ کہ دونوں کو چھوڑ کر قوم کی نظروں میں اپنا وقار مجروح کردے یا پھر دونوں کو قانون کے مطابق سزا دے ۔ لگتا ہے کہ پس چلمن طاقتیں بھی اب نوازشریف سے تنگ آگئی ہیں تو عمران خان سے مایوس ہوگئی ہیں ۔ ان کے لئے مائنس نوازشریف مسلم لیگ (ن) بھی مسلم لیگ (ق) ہے اور مائنس عمران خان تحریک انصاف بھی مسلم لیگ (ق) ہے ۔ الحمدللہ دونوں نے اپنی اپنی جماعتوں کو مسلم لیگ(ق) بنانے میں کوئی کسر بھی تو نہیں چھوڑی اور ماشاء اللہ مسلم لیگ (ق) والے کسی لیڈر کے وفادار نہیںہوتے ۔ مسلم لیگ(ق) کا لیڈر جان بخشی اور اقتدار ہوا کرتا ہے ۔ یہ دونوں چیزیں مسلم لیگیوں اور تحریک انصافیوں کو جہاں سے ملیں گی ، وہ وہاں چلے جائیں گے۔



.
تازہ ترین