• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہم اُس سے سبق سیکھنے والوں میں سے نہیں ۔ہمیں صرف اقتدار کی ضرورت ہے زر زن اور زمین توہم خود حاصل کر لیتے ہیں۔ ہمارا مستقبل تابناک ہے ۔ہمیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا ۔ کمزور کےلئے ممکن نہیں کہ وہ طاقت ور کا کان پکڑ سکے ۔ہم قاضی القضا کے بدلنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔ہم صاف شفاف لوگ ہیں ۔ہمارے کپڑے دیکھ لو کیاکہیں کوئی داغ نظر آرہا ہے ۔ہم نواز شریف بھی ہیں شہباز شریف بھی ۔ہم رانا ثنااللہ بھی ہیں اور طلال چوہدری بھی۔ ہم مریم نواز بھی ہیں اور مریم اورنگ زیب بھی ۔ہم جانتے ہیں کہ کائنات سچائی کا خزانہ ہے مگر یہ خزانہ پاکستان سے باہر کہیں پڑاہے ۔
دروغ گوئی کے اس عہد میں ہم نے جب بھی سچائی کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھا تو ہمیں روشنی جو تیرہ و تارگناہوں کے انجماد میں قید نظر آئی ۔وہ رات دکھائی دی جس کے اندھیرے ،دلوں کو جلا جلا کر دور کئے جاتے ہیں۔ ہمیں وہاں سورج نظر آیا جو دیا بجھ جانے کے بعد بھی طلوع نہیں ہو رہا ۔ہمیں رات کے سینے میں کسی گہرے زخم کی طرح ٹھہرے ہوئے دائرے میں داغ دارچاند کی روشنی بھی نظر آئی ہم نے جھوٹ اور فریب سے نہال سیاست کی کٹھ پتلیوں کے دھاگے تماشا گر کے ہاتھ میں کسی موٹے اور رنگ برنگے رسے کی طرح دیکھے۔
ہم عدالت عظمی کی اُس دھوپ تیز دھوپ،سایوں کو مٹاتی ہوئی نور اڑاتی ہوئی دھوپ سے بھی ہمکلام ہوئے جو ابھی تک اس سوچ میں گم ہے کہ سچائی کی روشنی نےپاکستان کا ساتھ کیوں چھوڑا ہے۔بے شک قلب و روح میں ان چاند ستاروں کی روشنی بھی آباد ہوئی جو چراغ کی آخری لو تک سچائی کوآواز دیتے رہتے ہیں۔وہ دردِ دل سےبھری ہوئی شامِ غم جو پگھلتے ہوئے دل کی طرح قطرہ قطرہ آنکھ سے ٹپکتی ہے ۔ہمیں ا ُن کے ارد گرد بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ ہم نے چراغ ِ انصاف کے اجالے میں دلہن کے لباس میں سنورتی ہوئی شفق کوبھی دیکھااور غروب کے اس دلکش منظر کے پتھرا جانے کی تمنا بھی کی ۔
پاکستان گلاب کے اُس پھول کی طرح ہے جس کے نہ کھلنے پر تتلیوں نے اپنے پروں میں کانٹے پرو لئے ہیں۔ نیکیوں کے اونچے پیڑ کٹتے چلے جارہے ہیں۔
اور ان کی شاخوں کے ساتھ جو کچھ ہم کر رہے ہیں یا کرچکے ہیں ا س کا داستا ن گو اپنےمرثیے بھول چکا ہے۔ عہدوں کی چکا چوند اور اقتدار کے نشے میں اسے کہاں یاد رہ سکتا ہے کہ یہ بیج بونے کا موسم ہے ۔ بیج بونے کاموسم اکثر گزر جاتا ہے۔دیکھئے خزاں کے موسم کی کارستانیاں ہر طرف خاک پر دستِ صبا سے دستکیں دیتے ہوئے پتے بکھرے پڑے ہیں اور جینے والوں کے ہاتھوں مٹی میں مل رہے ہیں ۔ بھیڑیوں کے قبضے میں آئی ہوئی پیڑوں کی ضائع ہوتی ہوئی چھاؤں کا کسی کو احساس ہی نہیں ۔لٹتے ہوئے میٹھے پھلوں کی نوحہ خوانی کرنے والےپر لٹیرے اپنے اپنے حواریوں کے ساتھ حملہ آور ہیں ۔اکیسویں صدی نے حملوں اور جنگوں کی شکل بدل دی ہے ۔ اب حملے اور جنگیں میدان ِ جنگ میں نہیں میڈیا کے پانی پت میں لڑی جارہی ہیں ۔لشکر کا میمنہ اگر پرنٹ میڈیا ہے تو میسرہ سوشل میڈیا ہے ۔الیکٹرانک میڈیا کو لشکر کا قلب سمجھئے ۔عدالت عظمی کے سامنے اپنے اپنے ڈائس توپوں کی طرح لگائے جاتے ہیں اور ان سے ایک دوسرے پر گولہ باری کی جاتی ہے ۔ قومی اسمبلی کے باہر بھی یہ جنگ اسی طرح لڑی جارہی ہوتی ہے ۔
جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کےلئے یہی لشکری اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔عدالت عظمی پر نئے حملوں کےلئے میسرہ اور میمنہ میں صف بندی کی جا چکی ہے۔ کسی وقت بھی بہت بھرپور حملہ ہو سکتاہے ابھی توصرف چھوٹی موٹی جھڑپیں ہورہی ہیں۔ لشکر کے قلب میں بڑے اہم کالم نگار اور اینکر پرسن موجود ہیں ۔نئے لشکری بھرتی کئے جارہے ہیں ۔انصاف کو دفاعی پوزیشن پر لانے کےلئے حملے کی بھرپورمنصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔ ( یہاں انصاف کا مفہوم سب سے بڑی انصاف گاہ یعنی سپریم کورٹ نہیں ،تحریک ِ انصاف ہے ۔)
حملے کے دوران گرفتار ہونے والے جنگی قیدی اپنی بے گناہی کےلئے مسلسل سفید جھوٹ بولتے چلے جا رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ جھوٹ اتنی مرتبہ بولیں کہ وہ سچ میں بدل جائے ۔ بے شک ایسا ممکن ہے لیکن صرف اس صورت میں کہ وہ خالی جھوٹ ہو سفید جھوٹ نہیں ۔سفید جھوٹ کئی لاکھ مرتبہ بھی بول دیا جائے تو جھوٹ ہی رہتا ہے جیسے اگر کوئی بضد ہوجائے اور ہزاروں مرتبہ کہے کہ یہ سورج نہیں سیاہ گولہ ہے تو پھر بھی سورج سورج رہتا ہے اور لوگ اس کی شعاعوں سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔
بہرحال الٹی گنتی شروع ہے۔ رات کا آخری پہر ہے بس صبح کاذب کےلمحات آسمان پر پھیلنے والے ہیں۔ اب اعلانِ نون اشہب ِ وقت کو روک نہیں سکتا ممکن ہے ذرا سی رفتارمیں کمی آئے لیکن یہ طے ہے کہ وقت کا گھوڑا فائرنگ کی رینج سے باہر نکل آیا ہے۔ نون لیگ کی لیڈر شپ کا کام اب گھوڑے کے نقشِ پا پیٹنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ وعدہ معاف گواہ یہ یقین کرنا چاہتے ہیں کہ کوئی واقعی آسماں آنکھ کی مٹھی میں بند ہونے والا ہے ۔وہ جو آنکھیں نہیں رکھتے وہ اس بات پر کیسے یقین کر سکتےہیں کہ ان کے نزدیک تو اِس سے بڑا سمندر ہو ہی نہیں سکتا۔ کنواں ہی مکمل کائنات ہے۔

تازہ ترین