• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بٹوارے کے بعد ہندوستان میں اردو کو اپنا کھویا ہوا مقام واپس ملنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ آپ ہندوستان کے کسی حصے میں چلے جائیں۔ وہاں کی مقامی زبان آپ نہیں جانتے ۔ ایسے میں آپ اردو میں بات چیت کر سکتے ہیں اور اپنامدعا بیان کرسکتے ہیں۔ فلمیں اردو میں بنتی ہیں۔ مگر فلم کا اسکرپٹ اسکرین پلے اور گانے دیوناگری رسم الخط میں لکھے جاتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ فلم کے فنکار، ٹیکنیشن اور پلے بیک سنگر، اور میوزک ڈائریکٹر اور کمپوزر فارسی رسم الخط سے نابلد ہوتے ہیں۔ جب ہندی یا دیوناگری اسکرپٹ میں لکھے ہوئے ڈائیلاگ بولے اور گانے گائے جاتے ہیںتب تلفظ اور ہجے میں اور لہجے میں اردو ٹھیٹھ ہوتے ہیں۔ لیکن زور آور بضد ہوتے ہیں کہ فلمیں ہندی میں بنتی ہیں کیوں کہ فلموں کے اسکرپٹ اور گانے ہندی میں لکھے جاتے ہیں۔ آپ فقیر کی بات نوٹ کرلیں۔ آگے چل کر ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب ہندوستان میں اردوزبان دیوناگری رسم الخط میں لکھی جائے گی اور پاکستان میں اردو فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی رہے گی ۔کچھ اسی طرح کی صورت حال سندھی زبان کے حوالے سے واضح ہوکر ہمارے سامنے آرہی ہے۔ بھارت میں بسنے والے سندھی خاص طور پر ان کی نئی نسل عربی اور فارسی رسم الخط سے لاتعلق ہوچکی ہے۔ وہ سندھی لکھنے کیلئے عربی رسم الخط کے بجائے دیوناگری رسم الخط استعمال کرتے ہیں۔ ہندوستان میں رہنے والے سندھی تعداد میں ایک کروڑ سے کم ہیں ۔ ہندوستان کی ایک سو بیس کروڑ کی آبادی میں سندھی معیشت ، ٹریڈکامرس اور مالی امور پر مکمل طور پر چھائے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کی اٹھائیس یا تیس قومی زبانوں میں دوایسی زبانیں بھی شامل ہیں جن کا اپنا کوئی صوبہ یا علاقہ نہیں ہے۔ وہ دوزبانیں ہیں اردو اور سندھی۔ اردو کو اس لیے قومی زبان کا درجہ دیاگیا ہے کیوں کہ اردو پورے ہندوستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ سندھی زبان کواس لیے قومی زبان کا درجہ دیاگیا ہے کیوں کہ ایک سوبیس کروڑ کی آبادی میں بکھرے ہوئے ایک کروڑ سے کم سندھی ہندوستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ان کا دیرینہ مطالبہ تھا ۔
اب دیکھتے ہیں کہ بٹوارے کے بعد پاکستان میں اردو کے ساتھ کیا کچھ ہوا کس کس طریقے سے اردو کا استحصال کیاگیا ۔ اور کس کس طرح سے اردو کا غلط استعمال ہوا ۔ تعجب کی بات ہے کہ بٹوارے سے پہلے ان علاقوں میں جن پر مشتمل پاکستان بناہوا ہے اردو بڑے پیار اور چاہ سے بولی جاتی تھی ۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد اردو پاکستان میں متنازع زبان بن گئی ۔ کچھ لوگ اب تک اس مفروضہ پر یقین رکھتے ہیں کہ اردو اور بنگالی زبان کے تنازع کے نتیجے میں آگے چل کر پاکستان کا بٹوارہ ہوا اور بنگلہ دیش بنا۔ ملکوں کا بٹوارہ صرف زبان اور عقیدہ کی بنیاد پر نہیں ہوتا ۔ ہندوستان پر مسلمانوں نے پانچ سوبرس حکومت کی تھی۔ اور اسپین پر مسلمانوں نے سات سوسال حکومت کی تھی ۔ مگر اپنے زوال کے بعد اسپین میں بسنے والے مسلمانوں کیلئے ایک الگ تھلک ملک یعنی separate home land for the muslims of spain کا مطالبہ نہیں کیاگیا تھا ۔ حالانکہ دو قومی نظریہ کے حوالہ سے عیسائی اور مسلمان دوالگ الگ قومیں ہیں۔ لیکن اسپین میں ایسا نہیں ہوا ۔ وہاں دوقومی نظریہ کی بات چلی اور نہ اسپین کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کی بات کی گئی ۔ اسپین کا بٹوارہ نہیں ہوا ۔ انیس سو اکہترمیں جب پاکستان کا بٹوارہ ہوا تھا تب بنگالیوں نے دوقومی نظریہ کا حوالہ نہیں دیا تھا ۔ تب کئی اسباب کی بنا پر مسلمان مسلمان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے تھے۔ یہ الگ موضوع ہے۔ اس پر پھر کبھی بات چیت ہوگی فی الحال ہم ہندوستان کے بٹوارے کے بعد پاکستان میں اردو کے ساتھ کیا کچھ ہوا، اس کا ذکر کررہے ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی اردو کو متنازع بنادیا گیا ۔ جب برسراقتدار لوگ دوراندیشی سے کام نہیں لیتے ، حالات کا ماضی کے پس منظر میں جائزہ نہیں لیتے تب وہ دور رس مسائل پیدا کرنے کے مرتکب بن جاتے ہیں۔ پہلے تین سال میں یعنی انیس سو سنیتالیس سے انیس سوپچاس تک پاکستان کے سب سے بڑے مسائل تھے معاشی استحکام اور ہندوستان کے فساد زدہ علاقوں سے بے سرو سامانی میں آئے ہوئے لوگوں کے رہن سہن ، روزگار ، علاج معالج ، اور آبادکاریاں کا دیوہیکل مسئلہ ۔ انتظامی امور چلانے والے ذہین اور اعلیٰ عہدوں پرکام کرنے والے باصلاحیت غیر مسلم زیادہ تر انگلستان اور ہندوستان چلے گئے نئے ملک پاکستان کو انتظامی ابتری ، درہمی برہمی کا سامنا تھا ۔ سمجھ سے بالا تر بات ہے کہ اتنےگمبھیر مسائل کے ہوتے ہوئے غیر منتخب حاکموں نے پاکستان کیلئے قومی زبان کا سنگین مسئلہ کیوں کھڑا کردیا؟ حکمراں یا تو فہم اور فراست سے عاری تھے ، یا جس خطے پر پاکستان بناتھا اس کے اصل اور قدیم باسیوں کی تہذیب وتمدن ، اور زبان سے بے خبر تھے۔ انہوں نے ایک ہر دلعزیز زبان اردو کو خواہ مخواہ متنازع بنادیا ۔ قومی زبان کے معاملہ پر خاص طور پر مشرقی پاکستانیوں اور سندھیوں کے اپنے تحفظات تھے۔بنگال کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتا کہ وہاں اردو میں لکھنے والوں کی تعداد کتنی تھی۔ تقسیم ہند سے دوسوبرس پہلے سندھ کے صوفی شاعر سچل سرمست اور بیدل سندھی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی صوفیانہ کلام کہتے تھے ۔ مگر تنگ نظر بیوروکریسی نے مشرقی پاکستان میں بنگالی اردو اور سندھ میں سندھی اردو کشیدگی پیدا کردی ۔
میں اپنی کتھائوں میں بار بار عرض کرچکا ہوں کہ اردو کرشماتی زبان ہے۔ اردو کو توسیع، ترویج، کشش، اور خوبصورتی کیلئے کسی کی ضرورت نہیں ہے۔ اردو خود بخود پھلنے پھولنے اور پھیلنے والی زبان ہے۔ قدرت نے اردو کو ایسی سیمابی کیمیاگری سے نوازا ہے کہ کوئی بھی اردو پر اپنی اجارہ داری قائم نہیں کرسکتا۔ جب بھی آپ اردو کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہیں تب اردو کا تو کچھ نہیں بگڑتا، آپ کا سب کچھ بگڑ جاتا ہے۔ملک اور معاشرہ بے چینی، اضطراب اور تعصب کی وبا میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ایک خوبصورت زبان اردو ، جو پوری پاکستانی قوم معہ بنگالیوں کے بولتی اور سمجھتی تھی، ایسی زبان کو متنازع بنانے کی بیوروکریسی نے آخر کیوں ٹھان لی تھی ؟ بات ہوگی اگلے منگل کے روز، اگلی کتھا میں۔

تازہ ترین