• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سے پاناما پیپرز منظر عام پر آئے ہیں، بالخصوص یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جانے کے بعد، ہم مختلف سرگرم عناصر پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ کھلے عام تبصرے کرنے اور بیانات دیتے سے گریز کریں جن کا نہ صرف ثبوت فراہم کرنا مشکل ہو بلکہ انہیں دلیل اور استدلال کا سہارا بھی حاصل نہ ہو۔ بے بنیاد قیاس آرائیاں عوام کو آگاہی فراہم نہیں کرتیں بلکہ اہم اداروں کی بے توقیری کا باعث بنتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں پہلے ہی سیاسی معاملات پر بے سر و پا بیان بازی فزوں تر ہے۔ یہاں افواہیں برق رفتاری سے پھیلتی ہیں اور اس سے پہلے کہ آپ کو علم ہو، تمام ملک میں سازش کی تھیوریاں پھیل جاتی ہیں اور ہر کوئی، ہر کسی کی نظروں میں کسی کا ایجنٹ قرار پاتا ہے، ہم نے اس رحجان میں مضمر خطرات کی ہمیشہ نشاندہی کی ہے کیونکہ اگر اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی تو زہریلی قیاس آرائیوں سے ایسے ادارے بھی نہیں بچیں گے جنہیں ہر قسم کے تنازعات اور تشکیک سے بالاتر ہونا چاہئے۔ عدلیہ پر اس کی مخصوص حیثیت اور وقار کو دیکھتے ہوئے یہ بات خاص طور پر صادق آتی ہے۔ قانونی بنیادوں پر سنائے جانے والے فیصلے خود واضح دکھائی دیتے ہیں۔ عدلیہ کے احکامات پر یقین کیا جاتا ہے کہ ان کے ذریعے بحران کا حل نکلے گا نہ کہ ان کی وجہ سے مزید تنازعات جنم لیں گے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ الزامات کی زد میں آنے والے افراد کسی طور عدلیہ پر اپنے ساتھ زیادتی کا الزام نہ لگا سکیں پاناما کیس پاکستان کی حالیہ تاریخ کا اہم ترین کیس ہے اور کسی بھی دوسرے کیس کی طرح اس کا فیصلہ بھی میرٹ پر آنا چاہئے اور اسے شفاف دکھائی دینا چاہئے چنانچہ بہتر یہ ہوگا کہ تعصب پر مبنی گفتگو اور تبصروں سے حد درجہ احتیاط برتی جائے۔ میڈیا میں شائع ہونے والے مخصوص مضامین اور رپورٹوں کے بارے میں اعلیٰ ترین جوڈیشل حلقوں کی جانب سے کئے جانے والے تبصرے پر وسیع تر تناظر میں تشویش کا پہلو موجود ہے۔ پاناما کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے بنچ نے کچھ اسٹوریز اور رپورٹس کو مدنظر رکھتے ہوئے تقریباً فیصلہ ہی سنا دیا ہے جو آئینی اور قانونی لحاظ سے نامناسب بات ہے کہ ایسا حکومت اور حکمران جماعت کے ایما پر شائع کیا جا رہا ہے تاہم اس آبزرویشن کے ہمراہ کسی ٹھوس ثبوت یا دلیل کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ہمارا خیال ہے کہ اس ضمن میں متوازن ردعمل بہتر ہوتا، ایسے عناصر ہمیشہ سے موجود ہوتے ہیں جو کسی کی بھی کہی ہوئی کسی بھی بات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے نہیں چوکتے اور اپنی انگلی کے اشاروں پر ناچنے سے انکار کرنے کی اخلاقی جرات رکھنے والوں پر چڑھائی کر دیتے ہیں۔ جب پی ٹی آئی نے جنگ اور جیو گروپ کا ایک بار پھر بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا تو اس کی بنیادی وجوہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھیں، پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ میڈیا اس کے وضع کردہ خطوط کی پیروی کرے۔ اس کا مقصد ایسا نہ کرنے والوں اور میڈیا کی آزادی کو ہر چیز پر مقدم سمجھنے والوں پر حملہ آور ہوکر انہیں نقصان پہنچانا ہے۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی ہر ایسے موقع کی تلاش میں گھات لگائے رہتی ہے چاہے اس کے لئے کتنی ہی اخلاقی سیاسی یا سماجی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔ یہاں یہ سمجھنا غلطی نہیں ہوگا کہ بنچ کے تبصروں کو پارٹی نے اپنے ان دعوئوں کا ثبوت سمجھا جو وہ کرتی رہتی ہے۔ چنانچہ وہ اپنے انتقام کی آگ سرد کرنے کیلئے کمربستہ ہے۔ اقتدار کے پیچھے بھاگنے والے سیاستدانوں کے اس طرز عمل پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ یہ طرز عمل غلط، بے بنیاد اور ہر قسم کی سچائی کے منافی ہے۔ پاناما پیپرز اور جے آئی ٹی کے معاملے پر چاہے یہ واٹس اپ کال کا ایشو ہو یا حسین نواز کی افشا کی جانے والی تصویر کا، ہماری سیدھی سادی دو ٹوک اور پیشہ ورانہ رپورٹنگ پی ٹی آئی اور اس کے ہم خیالوں کو گوارا نہیں، حالانکہ وہ اس کا ایک لفظ بھی غلط ثابت نہیں کر سکتے۔ بطور ایک میڈیا گروپ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم ایسی اسٹوریز شائع کریں جو پیشہ ورانہ معیار پر پوری اترتی ہوں۔ ہمیں بلا تعصب اسٹوریز شائع کرنے کے اپنے عزم پر فخر ہے۔ جنگ گروپ نے اس تناظر میں تمام تقابلی اہمیت رکھنے والی اسٹوریز کو شائع کیا ہے۔ یہ وہ اخبار ہے جس نے ’’ائی سی آئی جے‘‘ کے ساتھ تعاون کیا اور بڑی تعداد میں ان پاکستانیوں کو بے نقاب کیا جنہوں نے اپنی دولت بیرونی ممالک میں چھپائی ہوئی ہے۔ یہ ہم تھے جو سب سے پہلے پاناما لیکس کی اسٹوری کو سامنے لائے اس کے بعد موجودہ صورتحال پیدا ہوئی وہ صورتحال جسے پی ٹی آئی نے پلیٹ فارم کے طورپر استعمال کرتے ہوئے ایک مہم شروع کی۔ گزشتہ برسوں میں ہماری سامنے لائی جانے والی رپورٹس نے عدلیہ کی معاونت کی لیکن جہاں جہاں مسائل پیدا ہوئے، ان کی نشاندہی بھی کی گئی۔ ہم نے موجودہ حکومت اور حکمران جماعت پر تنقید بھی کی درحقیقت ہمیں اس کے خلاف کی جانے والی مبینہ سازش کا حصہ بھی قرار دیا گیا۔ اس معاملے پر ہمارا موقف بہت واضح ہے ہم خود کو تحقیقات اور احتساب کے لئے پیش کرتے ہیں۔ اگر ہم قصور وار پائے جاتے ہیں تو ہم سزا کے مستحق ہیں اب ہم مزید اور کیا کر سکتے ہیں؟ کیا پھر ہم اپنے پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی موقوف کر دیں؟ ہمارے لئے تمام اداروں کی طرح سب سے اہم چیز ہماری ساکھ ہے۔ اٹھائے گئے تمام سوالات کا کھل کر جواب دینا ہی پیدا ہونے والے متنازع ایشوز کو حل کرنے کا واحد راستہ ہے لیکن اس دوران ہر کسی کو اپنی ساکھ کا خیال رکھنا چاہئے، اور جو بھی ابہام ہو اسے دور کرنا چاہئے۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہم سے کوئی غلطی نہ ہو۔ عدلیہ، جے آئی ٹی، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کی ساکھ خطرے میں ہے، اور ہر کسی کو اس کے تحفظ کا خیال کرنا چاہئے۔ ہماری شائع کردہ اسٹوریز سے اٹھنے والے سوالات کا ہنوز جواب نہیں دیا گیا ہے۔ پاناما فیصلے سے پہلے ہمیں بتایا گیا تھا کہ تاریخ رقم ہونے جارہی ہے۔ ہم اس تاریخ ساز موقع کو خوش آمدید کہتے ہیں لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے ملک جیسی مشتبہ تاریخ رکھنے والے ملک میں تاریخ رقم کرنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے جتنا دکھائی دیتا ہے۔ ہماری تاریخ یہ کہتی ہے کہ جس عدالتی کارروائی کو شروع میں بے داغ اور شفاف قرار دیا گیا، اس پر بعد میں سنگین سوالات اٹھنے لگے۔ ایسی کارروائیوں کی بنیاد پر سنائے جانے والے فیصلوں نے ملک کو بارہا نقصان پہنچایا۔ تاریخ ہمیشہ اپنا فیصلہ بعد میں سناتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اس مرتبہ ہم جو فیصلہ سنانے جارہے ہیں اس پر خود تاریخ کو بھی ناز ہوگا، اور اس کیلئے کارروائی قانون کے مطابق اور ہر قسم کے سیاسی مصلحتوں سے ماورا ہوگی۔

 

.

تازہ ترین