• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میٹھی عید کے ثقافتی رنگ ... خصوصی تحریر…ڈاکٹرصغرا صدف

sughra.sadaf@janggroup.com.pk
عید،خوشیوں اور اُمنگوں بھرا تہوار ہے اس لئے اس کے ساتھ لفظ مبارک لازم و ملزوم ہو کر رہ گیا ہے۔ مبارک دراصل سلامتی ، خوشی اور زندگی کی مسرتوں سے لطف اندوز ہونے کی دعا ہے۔جس طرح پکوڑے افطاری کی زینت بن چکے ہیں اسی طرح عید الفطر کا آغازمیٹھی سویوؤںسے ہونا لازم ہے۔ دراصل مذہبی تہوار موسم اور معاشرت سے ہم آہنگ ہو کر ہمارے مزاج اور عادات کے عکاس بن جاتے ہیں۔ہم ان سے خوشیاں کشید کے نئی قوت حاصل کرتے ہیں۔جب میڈیا اور انٹرٹینمینٹ چینلز وجود میں نہیں آئے تھے تو سال بھر میں جشن منانے اور خاندانوں کے مل بیٹھنے کو یہ سب سے بڑا مذہبی تہوار ہوتا تھا۔رشتے دار اور روزگار کے سلسلے میں دور دراز حتیٰ کہ پردیس میں بسنے والے اپنے پیاروں کی دید سے عید کو خوشگوار اور یادگار بنانے کیلئے لمبے سفر طے کر کے آتے تھے۔ دوستوں ،عزیزوں چاہنے والوں ،ماں باپ اور بچوں کیلئے عید کی آمد پردیسی پیاروں سے ملاقات کا وسیلہ بن کر آتی تھی۔ عید کی آمد پرنئے کپڑوں کی خوشی ایک خواب کی طرح ہوتی تھی لیکن اصل انتظار تو اس رونق اور ھلے گلے کا ہوتا تھا جو عید کے ساتھ وابستہ تھا۔ اپنائیت کا ماحول جس میں لوگ پرانی رنجشیں بھلا کر گلے ملتے اور اس دن کے تقدس کو بحال کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ گھر میں داخل ہونے والے ہر فرد کی تواضع کی جاتی۔ چھوٹے بڑے ،امیر غریب کا فرق مٹ جاتا۔سماج بھائی چارے اور اخوت کی زندہ تصویر بن جاتا تھا۔ ثقافت وہ گہرا رنگ ہے جو ہر رشتے ناطے اور عقیدے پر اپنا اثر دکھا کر رہتا ہے۔ عقائد بھی زمین سے جڑی ثقافتی قدروں کو ساتھ لے کر چلنے کے داعی رہے ہیں۔اسی لئے ہمارے مذہبی تہوار ہمارے ثقافتی مظہر کے آئینہ دار تھے۔عید پر روایتی کھیلوں کے مقابلے ،پینگ (جھولے) ،میلے ٹھیلے اور پُتلی تماشے ہوتے تھے جو عید کی اصل رونق ہوتے تھے۔عید والے دن روٹھے ہوؤں کو منانے کا رواج تھا۔ غلطی کرنے والا جب صلح کی غرض سے جاتا تو چل کر آنے والے کی قدر کی جاتی اور پشیمانی اور روایتی معافی کی بجائے کھلے بازؤوں سے آؤبھگت کی جاتی ۔ عید کا دوسرا دن یا پچھلا پہر ننھیال میں گزارنا بھی ایک روایت تھی۔ ننھیال سے جڑے میٹھے رشتے خالہ ماموں ،نانا نانی اور دیگر کی محبتوں سے چمکتے چہرے ایک نعمت سے کم نہ ہوتے تھے۔ایک دوسرے کے گھروں میں پکوان بھیجنا بھی ایک ضروری عمل تھا ۔ اس کے بغیر عید نا مکمل تھی۔ اس ساری پریکٹس کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا لیکن زمانہ بہت جلدی بدل گیا ہے یا شاید ہم ہی تیز رفتار وقت کے ساتھ الجھ کر اپنی ثقافتی قدروں اور روایات کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ لیکن کچھ بھی ہو انسان اپنے اصل کی طرف لوٹ کر ضرور آتا ہے کیوں کہ اسی صورت میں وہ سچی خوشی حاصل کرتا ہے۔ جب سے واٹس ایپ اور فیس بک وجود میں آئے ہیں ہر قسم کے کیک ،مٹھائیوں اور پکوان کا لین دین یہیں انجام پاتا رہا ہے۔نت نئے عید کارڈز بھی یہی پوسٹ ہوتے ہیں۔ لیکن اس بار کچھ مختلف ہے ۔شاید ہم سب اپنی کھوئی ہوئی قدروں سے ناطہ جوڑ کر زندگی کے اس خلا کو پُر کرنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے تہوار پھیکے اور بے ذائقہ ہو چکے ہیں۔ مصنوعی انداز ،لب و لہجہ ،سرد روئیے اور بیگانے پن نے ہماری سچی خوشیوں کو مجروح کر کے ہمیں ذات میں محدود کر دیا ہے، اور قید ہونا تو کسی بھی دور کے انسان کو پسند نہیں رہا۔ اِک ذرا سے ارادے سے تمام حصار تڑ تڑ تڑ ٹوٹنے لگتے ہیں۔ آج میرے گھر عزیزوں ،دوستوں کی طرف سے کیک اور مٹھائیاں پہنچتی رہیں اور تبادلے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ لیکن اس وقت بے حد خوشی ہوئی جب وزیر انفارمیشن اینڈ کلچر کی طرف سے مٹی کے برتن میں میٹھے گلاب جامن موصول ہوئے جن میں ۱پنائیت کا رنگ اور ذائقہ تھا۔ اس عید کی اصل روح فطرانہ اور زکوۃ ہے جو معاشرے کے ضرورت مند اور نادار افراد کو ساتھ لے کر چلنے اور خوشیاں بانٹنے کا وسیلہ ہے۔ رمضان کا آغاز زکوۃ اور اختتام فطرانے سے ہوتا ہے ۔اس طرح یہ عید خدمتِ خلق کا تہوار ہے جو ایثار اور اُخوت سے لبریز ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ ہم نے اس عید پر اپنے سفید پوش رشتہ داروںاور غربا کی ضرورتوں کو کس حد تک محسوس کیا ۔ کچھ پل بچھڑ جانے والے دوستوں کی اولاد اور خاندان کے ساتھ بِتا کر انہیں اپنائیت کا احساس دلائیں۔عید جشن کا نام ہے اور جشن محفل اور ہجوم کا متقاضی ہے ۔آئیے اس عید پر دوستوں اور رشتہ داروں میں پیدا ہونے فاصلوں کو کم کرنے کیلئے انہیں بھرپور توجہ دیں۔منافقت اور بیگانگی کا نقاب اتار کر دل سے مسکرائیں ،قہقہہ لگائیں ،خفگی کا اظہار کریں،روٹھیں اور مان جائیں۔اگر ہم انسان ہیں ربوٹ نہیں۔اگر انساں ہیں توانسانوں جیسے روئیے اپنائیں۔ اس زندگی کی طرف لوٹ چلیں جو ہماری ثقافت کی آئینہ دار ہے کیونکہ وہ سچی اور حقیقی ہے۔ثقافت کا رنگ ،لباس ،پکوانوں اور رویو ں میں محسوس ہونا چاہئے تبھی بحثیت قوم ہم اپنی انفرادی پہچان کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔خداکرے ہمارے خوشیوں بھرے تہوار کو کسی کی نظر نہ لگے ۔وطن عزیز کی رونقیں سلامت رہیں کیونکہ ہمارے سارے رنگ اسی کی بدولت ہیںیہ آباد ہے تو ہم شاد ہیں ۔ آپ سب کو عید مبارک!

 

.

تازہ ترین