• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ ممالک جو غیر ملکی امداد اور بالخصوص امریکی امداد پر انحصار کرتے ہیں بظاہر توایسا لگتا ہے کہ ان کے مادی وسائل اور ذرائع میں اضافہ ہورہا ہے لیکن در حقیقت یہ امریکی امداد ان ممالک کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کریں۔ ورنہ وہ یا تو اپنی معیشت سے محروم ہو جائیں گے یا پھر ان کی معاشی آزادی عدم استحکام کا شکار ہو جائے گی۔ بڑے بڑے ممالک اور خاص طور پر بیرونی کریڈٹ ایک بین الاقو امی امر ہے ۔ چھوٹے ممالک کے اپنے وسائل کم ہوتے ہیں تو وہ بڑے ممالک کی طرف رخ کرتے ہیں۔ امریکی کارپوریٹ سیکٹر کا ایک خاصہ بڑا حصہ اب اپنی مقامی منڈیوں کی جانب دیکھ رہا ہے اور اسے اپنے بیرونی کاروبار میں توسیع سے کوئی دلچسپی نہیں رہی لہٰذا امریکہ میں بڑے بڑے تجارتی ادارے اور لابی مطالبہ کر رہی ہیں کہ ان ممالک کو دی جانے والی امداد میں ممکنہ حد تک تخفیف کر دی جائے۔ امریکی حکومت نے نتیجتاً ان ممالک کو دی جانے والی امداد پر سخت اور کڑی شرائط عائد کر دی ہیں تاکہ امریکہ کے کاروباری حلقوں کی تائید و حمایت حاصل کر سکے اور ان ممالک کو دی جانے والی امداد کے نتیجے میں امریکہ کی ادائیگیوں کےتوازن پر جو برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ان کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔
شروع میں دیگر ممالک کو دی جانے والی یہ امداد گرانٹس کی صورت میں دی جایا کرتی تھی لیکن اب اس کی یہ شکل تبدیل ہوچکی ہے اور گرانٹس کی جگہ اب قرضوں نے لے لی ہے۔ اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ برآمد ہو رہا ہے کہ مجموعی امداد میں دیئے جانے والے قرضوں کا فیصد بتدریج کم رہا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ امریکہ کی جانب سے دی جانے والی معاشی امداد کے مجموعی حجم میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ امریکہ کا امدادی پروگرام بالخصوص اس بات پر زور دیتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے دی جانے والی معاشی اعانت ان ممالک کو فراہم کی جائے جو اپنی مدد آپ کی بنیاد پر فیصلہ کن اقدامات کر رہے ہیں۔
پاکستان اب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہو گیاہے کہ اس پیغام میں کیا حقیقت پوشیدہ ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان امریکہ سے یہ کہتا رہا ہے کہ اس کی معاشی اور اقتصادی امداد میں اضافہ کیا جائے ۔ تاہم واشنگٹن نے پاکستان کے اس مطالبے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا کیونکہ پاکستان اس بات پر رضامند نہیں ہے کہ بعض صنعتی اشیاپر سے امپورٹ کنٹرول اُٹھا لیا جائے۔ جونہی پاکستان یہ امپورٹ کنٹرول اُٹھا لے گا امریکہ فوری طور پر پاکستان کو دی جانے والی امداد میں اضافہ کر دے گا۔
پاکستان جیسے ممالک تعلیمی اور طبی سہولتوں کے فقدان سے دوچار رہتے ہیں، غیر ملکی امداد کا خاصہ بڑا حصہ عام طور پر اشیا صرف کی فراہمی، کچھ صنعتی مقاصد اور معاشرتی معاشی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر صرف ہوتا ہے لہٰذا امریکہ اس امداد کو اس مقصد کے پیشِ نظر استعمال کر رہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو دنیا بھر کے لئے ایک زرعی ملک، ایک ’’ فارم لینڈ‘‘ میں تبدیل کر دیا جائے۔ ایک ایسا خام مواد فراہم کرنے والا ملک جو امریکی معیشت کے لئے ضمیمے کا کردار ادا کر سکے۔ امریکہ کی ضروریات اور اس کے سونے کے ذخائر میں کمی کے نتیجے میں یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے جس میں امریکی ادائیگیوں کے توازن کے خسارے اور اس کی معیشت کی نا خوشگوار صورتِ حال کو بھی بڑا دخل ہے جس کے نتیجے میں امریکی امداد کا ملنا اب کسی حد تک غیر یقینی ہو گیا ہے۔ امریکہ اب تک دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو دی جانے والی یہ امداد اس غرض سے دے رہا تھا تاکہ اس کی برآمداتی تجارت میں اضافہ ہو سکے چنانچہ امریکی امداد کا اسی فیصد حصہ امریکی سازو سامان، اشیااور خدمات کی خریداری پر ہی صرف کیا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں، فاضل فارم پروڈکٹس خاص طور پر دلچسپی کا باعث ہیں کیونکہ دی گئی امریکی امداد کا ایک تہائی حصہ خوراک اور غذا کے حصول پر ہی صرف کیا جاتا ہے۔ اس امریکی امداد کی بنیاد پبلک لاء480پر ہے اور خوراک برائے امن بھی اسی میں شامل ہے تاہم وہ شرائط جن پر خوراک فراہم کی جاتی ہے ایسی ہیں جو ان ممالک کی نسبت ، امریکہ کے لئے زیادہ سود مند اور منافع بخش ہوتی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کو جنہیں یہ فاضل غذائی امداد فراہم کی جاتی ہے وہ اس امداد کے عوض ایک بڑے حصے کی ادائیگی اپنی قومی کرنسی میں ہی کرتی ہیں جو امریکی حکومت کے خاص اکائونٹس میں جمع ہوتی رہتی ہے۔ واشنگٹن ان رقومات کو اپنی مقامی کرنسی میںدیئے جانے والے قرضوں میں استعمال کرنے کے علاوہ اپنی فوجی تعمیرات اور مقامی امریکی اداروں کیلئے استعمال کرتا ہے۔
یہ رقومات ان نجی امریکی کاروباری اداروں کو بھی بطورِ قرض دی جاتی ہے جن کا تمام تر دارومدار امریکی حکومت کی گرانٹس پر ہوتا ہے۔ واشنگٹن نے حال ہی میں اس شکل میں سرمائے کی برآمد کو خاص اہمیت دی ہے کیونکہ اس سے امریکی ڈالروں کے باہر جانے کا کوئی امکان نہیں ہوتا اور نہ ہی امریکہ کے ادائیگیوں کے توازن پر اس کا کوئی منفی اثر مرتب ہو تا ہے۔ یہ کافی بڑے قرضے ہوتے ہیں جو اس حقیقت کا مظہر ہیں کہ کس طرح فاضل فارم پروڈکٹس امریکی سرمائے کی برآمد کے لئے راہ ہموار کرتی ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں کے دوران امریکہ، فاضل زرعی پیداوار ملین ٹن کی صورت میں غیر ممالک کو برآمد کر چکا ہےجس کے عوض اسے لاکھوں ڈالرز کی آمدنی ہوتی ہے۔ اس رقم کے استعمال پر بھرپور کنٹرول نے واشنگٹن کو ایک ایسا ذریعہ فراہم کردیا ہے جس کی مدد سے وہ ان ممالک میں براہِ راست اور بلاواسطہ اپنا معاشی اور سیاسی اثر و رساخ قائم کرسکتا ہے۔ اس سوچے سمجھے قانون کے تحت اب اس قسم کے سامان کی رسد پر ادائیگیاں قومی کرنسی میں نہیں بلکہ ڈالروں میں وصول کی جاتی ہیں جو امریکی حکومت کو تو اپنی ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے میں مدد دیں گی لیکن ترقی پذیر ممالک کی ادائیگیوں کے توازن پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ چنانچہ ان تمام اثرات کو مدِنظر رکھتے ہوئے جو اس امریکی امداد کے نتیجے میں، ان ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں پر مرتب ہورہے ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک اصول کے طور پر اس امریکی امداد نے کسی بھی طور ان ممالک کی پیداواری صلاحیتوں کو آزادانہ بنیاد پر کسی بھی ترقی اور پیشرفت سے محروم کر رکھا ہے، نہ ہی ان ممالک کی معاشی اور مالی حالت بہتر ہو سکی ہے بلکہ اس نے تو صورتِ حال کو مزید خراب ہی کیا ہے۔ یہ بات بالکل قدرتی اور فطری ہے کہ یہ امریکی امداد ایسے حالات پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے جن میں قرضوں کا ایک بڑا حصہ غیر عقلی طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور وہ لوگ اس غیر ملکی قرضے کو اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں جنھیں اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی سے ذرہ برابر دلچسپی نہیں ہوتی تاہم اس بات سے قطع نظر کہ ان قرضوں کو کون استعمال کرتا ہے اور کن مقاصد کے تحت انہیں استعمال کیا جاتا ہے، ان قرضوں کو مع سود واپس تو بہر صورت کرنا ہی پڑتا ہے۔ لاطینی امریکہ کے ممالک کی جانب سے ان غیر ملکی قرضوں کے عوض جو رقم سود سمیت واپس لوٹائی جاتی ہے وہ ان کے مجموعی غیر ملکی زرمبادلہ کا تیس فیصد بنتی ہے، پاکستان بھی اس سلسلے میںان ملکوں سے پیچھے نہیں ہے۔

تازہ ترین