• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہ شرافت چھوڑ دی میں نے
وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال نے کہا ہے، میرے دور میں تھانے بکے تو سیاست چھوڑ دوں گا، حیرانی ہے تھانوں میں کوئی دلکشی نہ رہی کہ ا نہیں کوئی خریدے؟ سیال صاحب مزید تحقیق کریں کہیں یہ دور ہی نہ بک گیا ہو۔ کراچی کے شہریوں کو جتنی شکایت پولیس سے ،تھانوں سے ہے کسی اور سے نہیں، ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ نیوز چینلز بھی صرف عوام ہی دیکھتے ہیں خواص تو کچھ اور ہی دیکھتے ہیں کیونکہ وہ جو چاہیں خرید سکتے ہیں، آپ بڑی روانی سے اب کہہ سکتے ہیں؎
تھانوں کا وہ حال دیکھا کہ
سیاست چھوڑ دی میں نے
تھانے نہ بکتے اگر ضمیر نہ بکتے، اور تھانے کیا کچھ بھی نہ بکتا، صرف اشیائے ضرورت سستے داموں بکتیں، بلاشبہ حکومتوں میں سیاستوں میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں، لیکن وہ شایداتنےاچھے نہیں ہوتے کہ سیلاب خیانت کے سامنے ٹھہر سکیں، کوئی اپنی ذات میں انجمن یا ایک جہاں ہوتا تو خادم کہلاتا اور مخدوم ٹھہرتا،اس لئے یہ کسی ایک وزیر داخلہ کا مسئلہ نہیں، آلودگی کے بادلوں کا ایک ایسا سسٹم ہے جو ہمارے ضمیروں کی زمین پر موسلادھار برس رہا ہے، اس لئے اب سندھ کے وزیر داخلہ کا یہ کہنا کہ اگر ان کے دور میں کوئی تھانہ بکا تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے، بے خبری ہے یا پھر بکنے والوں کا ہنر ہے کہ موصوف کو نظر ہی نہیں آتا کہ تھانہ تو بک چکا ہے اور وہ شہریوں کو غیر محفوظ کرتا ہے تاکہ حفاظت کا ڈھونگ رچاسکے۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
چوں کفراز کعبہ برخیزد.....
پچھلے دنوں وزیر اعظم آزاد کشمیر نے نہ جانے کیا کہہ دیا کہ آزاد اور مقبوضہ دونوں کشمیریوں میں ان کے استعفیٰ دینے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ اسی طرح گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہ جانے کیا کہہ دیا کہ زبانیں منہ سے باہر آگئیں۔ بصد ادب ہم ہر دو حضرات سے کہتے ہیں کہ منصب کی نزاکت سامنے رکھتے ہوئے کوئی ایسی بات نہ کہیں کہ پھر ان کے بارے ہر کوئی سب کچھ کہنے لگے۔ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کی حب الوطنی ا ور کشمیر کے پاکستان سے ملحق رہنے بارے کوئی شک و شبہ نہیں مگر ان سے کچھ بے احتیاطی ہوئی اور خود کشمیری اس پار اس پار سے منہ میں انگلیاں دبا کر رہ گئے۔ دھمکی کلچر اس قدر عام ہوچکا ہے کہ جیسے دلائل ختم ہوجائیں تو انسان لایعنی باتوں پر آجاتا ہے، ہم تو قوم سے بھی کہیں گے کہ اگرچہ کشمیری وزیر اعظم کا ایسا کچھ کہنا جو ان کی مراد ہی نہ تھا ان کی ذات سے چپک کر رہ گیا، ہم یہ کہتے ہیں کہ ان کے بیان کو معانی نہ پہنائے جائیں، اسی طرح ہم اکثر اپنا ہی بازو کاٹ بیٹھتے ہیں،کسی کے خلوص، کردار اور کارکردگی پر فوری ردعمل اکثر غلط ہوتا ہے، افہام و تفہیم، عفو و درگز کا فقدان ہے اور فرد جرم عائد کرنے کا شوق ہر شخص پر سوار ہے یہ طرز عمل کشمیر کاز کو نقصان پہنچائے گا، خود وزیر اعظم آزاد کشمیر بھی اس کو مثبت لیں کیونکہ لوگ ان سے توقع ہی نہیں رکھتے کہ وہ الحاق بارے قبلہ بدلنے کا سوچیں، بہرحال وہ ایسی بات نہ کہتے جس کا مطلب کچھ اور بھی نکالا جاسکتا ہے، بھارت تو اپنے تئیں آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ کو اٹوٹ انگ کہتا ہے۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
بہتان تراشی جیب تراشی سنگ تراشی
ہر تراشی فن نہیں ہوتی، سارا معاملہ بہتان، جیب اور سنگ کے گرد گھومتا ہے، سیاست کوچۂ تہمت بن گئی، مرد و زن کی عزت محفوظ نہیں، پتھر صورت گر سنگ زن ہوگئے۔ کیا یہ دن بھی قائد و اقبال کے پاکستان پر آنا تھے۔ ایک نفرت، حسد، بغض، کینہ اور بازاری پن ہے جس کا سبب شاید یہ ہے کہ سیاست کے میدان میں کارکردگی کے بجائے دولت کے انبار لگ گئے ہر سیاسی چہرہ شاد باد ہے اور عوامی پاکستان برباد ہے، کیونکہ وہ غربت میں بھٹک رہے ہیں ان کے لئے خوشحالیاں لانے والے عیش و عشرت کے جہاں میں کھوگئے، جو منظر نامہ اسکرینوں پر نظر آرہا ہے وہ ملک میں ہر پاکستان کے اخلاق و کردار کے لئے خطرہ ہے، منصب، کرسی، جمہوری و انتظامی ایوانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ کہیں ہم سب کو من حیث القوم نااہل نہ کردے، اختلافات الزامات کی حد تک تو دنیا بھر میں ہوتا ہے مگر خرافات میں کھوجانا اور کسی ایک بھی ایسے طائفے کا نہ ہونا جو تہذیب اخلاق و سیاست اور انداز حکمرانی کی خبر لے مفقود ہے، گویا سب ہی مرفوع القلم ہوچکے ہیں، اب تو شاید یہ بھی ممکن نہ رہا کہ کسی کو برا کسی کو اچھا کہا جائے کیونکہ سب کے سب صادق اور امین ہیں،صرف وہ اکثریت غلطی کرگئی کہ اپنی فلاح کے لئے ان صادقوں امینوں کو چن چن کر اونچے سنگھاسنوں پر بٹھا بیٹھی، زبانیں گز گز بھر کی ہو کر حد کراس کرگئیں یوں لگتا ہے رزق حرام کی کثرت نے اخلاقی دیوالیہ پن کو عام کردیا، ایک مستی خرمستی ہے کہ یہ تک احساس کسی کو نہ رہا وہ کیا کہہ رہا ہے کیا کررہا ہے، کردار پر سے ضمیر کا پہرہ بھی اٹھ گیا، خبریں تو بہت ہیں مگر ناقابل تبصرہ ، قلم سے قلم اور عالم ،جاہل سے شرمندہ ہے، حیا نام کی چیز نہ مردوں میں رہی نہ عورتوں میں، البتہ جن کے گھروں میں افلاس اور محرومی ہے وہ ہنوز بااخلاق، غیرت مند اور پاکستان کے وجود کی دلیل ہیں اور باقی سب........؟
٭٭ ٭ ٭ ٭
گوواں نہیں پرواں کے نکالے ہوئے ہیں
٭...وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، وزیر اعظم تبدیل ہوسکتا ہے پالیسیاں نہیں۔
یہ بڑی اچھی بات انہوں نے کی، بلاشبہ منصب دار اہم نہیں ہوتا منصب زیادہ اہم ہوتا ہے اور قومی ترقی کے منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی پالیسی برقرار رہنی چاہئے، سابق وزیر اعظم اب بھی ن لیگ کے لئے اتنے ہی اہم ہیں جب وہ سابق نہ تھے۔
٭...خواجہ آصف، عمران شیخ رشید کو تب ووٹ دیں گے جب وہ چپڑاسی کا الیکشن لڑیں گے۔
یہ ریمارکس خواجہ صاحب کو زیب نہیں دیتے۔
٭...ایاز صادق( اسپیکر )،شیخ رشید خود خبر بننا چاہتے ہیں۔
تو بننے دیں وزیر اعظم تو نہیں بن سکے پھر ڈر کس بات کا؟
٭...بلاول کا حریفوں کو ٹف ٹائم دینے کے لئے خود میدان میں اترنے کا فیصلہ۔
میدان میں اترے تو ایک عرصہ ہوگیا ہے کیا معاملہ اترنے تک ہی رہے گا یا آگے بڑھنے کا بھی کوئی پروگرام ہے، بہرحال حالیہ بحرانی کیفیت سے پی پی کو فائدہ ہوا ہے۔

تازہ ترین