• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوام پریشان کیوں؟
لوڈ شیڈنگ جاری، سرائے عالمگیر میں 35گھنٹے سے بجلی غائب، عوام پریشان عوام کی تو قسمت ہی خراب ہے یا انہوں نے خراب بنا لی ہے، بہر صورت وہ خوش نہیں بے چین ہیں، بیقرار ہیں اس لئے نہیں کہ یہ ملک میں کیا تماشا لگا ہے، اس لئے کہ وہ جن مشکلات میں ایک زمانے سے گرفتار تھے ہنوز ان کو رہائی نہ ملی، مہنگائی نے جب کنٹرول کنندگان کو مصروف دنگل دیکھا تو بیچارے غریب عوام نے اپنے سامنے مہنگائی کا جنگل دیکھا، دعائیں ان کی بھی خالی نہ گئیں ذمہ داران نے بھی ایک ایسا دلدل دیکھا کہ جتنا نکلنے کے لئے زور لگاتے ہیں اور دھنستے جاتے ہیں، سب کیفر کردار کو پہنچیں گے، وہ بھی جنہوں نے مسجد سے جوتیاں چرائیں وہ بھی جو ان کو تاڑ رہے تھے، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اب کرپشن کے خاتمے سے مشروط ہو چکا ہے یہ خدائی فیصلہ ہے جو ہمارے غلط فیصلوں اور گندے اعمال و اقوال کے باعث شرمندہ عملدرآمد ہو کر رہے گا، اب مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور دیگر تمام تکالیف جو حکمران و سیاستدان ساز عوامی قوت کو درپیش ہیں وہ سب انہی کے ہاتھوں چھٹ جائیں گی بس جہاں ستیاناس وہاں سوا ستیاناس کا ایپی سوڈ گزر جانے دیں پھر اس کے پار دور افق پر ایک سحر جس میں سحر ہو گا طلوع ہو گی، اور ہر صبح صبح بنارس اور ہر شام، شام اودھ ہو گی، گھبرانا نہیں، خاطر جمع رکھنا ایک دن ہم بھی اچھے دنوں کا لطف اٹھائیں گے اور انجوائے کریں گے رنگین شاموں کو؎
دور کہیں جب دن ڈھل جائے
شام کی دلہن بدن چرائے
میرے خیالوں کے آنگن میں چپکے سے آئے
یہ جو آج کی تاریکیاں ہیں قابل دید سیلفیاں بن جائیں گی، اب یہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے بجائے ظلم کے خاتمہ بالخیر کا انتظار کریں والسلام۔
٭٭٭٭
جو ہوا اچھا ہوا
سیاسی منظر نامے کے سارے مناظر آسمانی ہیں، اور اب شاید تمام فریقوں میں اور ان کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کے اچھے نتائج نکلیں گے، ہر ذہن میں ضمیر میں دبی ہوئی چیز سامنے آ رہی ہے، یہ جو ایک مکسڈ دیگ پک رہی ہے، اسے جو کھائے گا محب وطن بن جائے گا، تمام خبروں کو پیش نظر رکھ کر دیکھا جائے تو تمام اچھائیاں برائیاں دست و گریباں ہیں، فطری انداز یہ ہے کہ اچھائی، برائی کو کھا جاتی ہے، یہاں دیر سے سہی مگر کچرا صفائی آپریشن پردئہ غیب سے شروع ہو چکا ہے، کچھ عرصہ بعد یہاں نہر سیاست بھل صفائی کے بعد اپنے کناروں کے اندر نہایت اچھے انداز میں بہتی نظر آئے گی، ہمارا اجتماعی بیانیہ ایک حتمی اور حق پر مبنی بیانیے کو جنم دے گا وہ برپا ہو گا، اور اس ملک میں اس کا ہر دشمن بے دست و پا ہو گا، ہمارے اس نظام میں ہلچل پیدا ہوئی تو اوپر کا نظام بھی متحرک ہو گیا، اس کا چھانٹا مکمل صفائی کر دے گا اب ہمیں افراد کو الزام دینے کے بجائے انتظار کرنا چاہئے کہ یہ سنگین اختلاف سچ کو حکمراں بنائے گا، سسٹم کی اصلاح ہو گی، اور حیرانی تب ہو گی جب بگاڑنے والے بھی درستگی اعمال کے مشن میں شامل ہوں گے، ہمارے اندر کو ایک عظیم قوت، باہر لا کر اس کی چتا جلانے کو ہے، سب ٹھیک ہو جائے گا، حق و باطل جس سطح پر بھی آمنے سامنے ہوں غلبہ حق ہی کو ہوتا ہے، ابھی تک ہمیں کوئی پتہ نہیں ہم میں سے کون کیا ہے مگر ایک آفاقی سسٹم اپنے میکانزم سے اس ہنگامہ ٔ رستا خیز میں سے ایک ایسا موسم برآمد کرے گا کہ سب کی تسلی ہو جائے گی، پچھتائوں اور واپسیوں کے سلسلے شمار میں نہیں آئیں گے اچھے کی توقع اچھائی کی امید قائم ہے، اور یوں ایک ایسا ڈراپ سین ہو گا کہ نیلا آسمان، آلودگی سے پاک صاف ہو جائے گا، ابر کرم برسے گا، اور ہمیں نہال کر جائے گا گھبرایئے نہیں۔
٭٭٭٭
نہ میں مانگوں سونا چاندی نہ میں مانگوں ہیرے موتی
عاصمہ جہانگیر فرماتی ہیں:پاناما کیس میں سونا، ہیرے اور نوٹوں کی بوریاں نہیں اقامہ نکلا۔ اگر محترمہ فارسی نہیں جانتیں تو ترجمہ دیکھ لیں بہرحال حافظ شیرازی کا یہ شعر ہمیں مجبور کر رہا ہے کہ مجھے پیش کرو کیونکہ محترمہ بھی ساحل نشینوں میں سے ہیں؎
شب تاریک و بیم موج و گردابے چنیں ہائل
کجا دانند حالِ ما سکب سارانِ ساحل سہا
(اندھیری رات، موجوں کا ڈر اور ایسا ہولناک گرداب ہے، مگر ساحلوں پر بیٹھے چین کی زندگی بسر کرنے والے ہمارا حال کیا جانیں) پاناما میں سے جو اقامہ نکلا وہ خود ایک بڑی بوری ہے، عاصمہ قانون کی عالمہ فاضلہ ہیں اور سپریم کورٹ بھی قانون کو جانتی ہے، اب اس میں ہم عوام کا قصور نہیں، قانون دانوں میں سے کسی کی عینک کا نمبر قابل تبدیلی ہے،پاناما تو ایک بہانہ ہے دراصل قدرت کو ہمیں اپنے کٹہرے میں لانا ہے، پھر پاناما کے لفافے میں جو اقامے کا لفافہ نکلا اسے بھی اُن کو کھول کر دیکھنا چاہئے تھا کیونکہ پرانے زمانے جب کوئی اہم خط بھجوایا جاتا تو لفافے میں ایک لفافہ ہوتا جس میں سب کچھ ہوتا، پاناما کا معاملہ بھی شاید کچھ ایسا ہی ہے ورنہ عدالت عظمیٰ کے فاضل جج صاحبان جو بحر قانون کے شناور ہیں، وہ اقامے کو اتنی اہمیت نہ دیتے دراصل انہوں نے لفافہ در لفافہ بھی کھول لیا، اور ابھی تو والیوم 10نہیں عام ہوا، اس کا نام کوئی نہیں لیتا، کیونکہ پھر شاید بات اقامے پر نہیں کسی اور معاملے پر آ رکتی اور ابھی تو نیب ریفرنسز کا بھی اقامہ گتھی سلجھانا باقی ہے
٭٭٭٭
سب مانتے ہیں انسان خطا کا پتلا ہے
....Oآصف زرداری:پیپلز پارٹی کشمیریوں پر ہونے والے جبر کو ختم کرے گی۔
جیسا کہ اس نے ماضی میں جبر ختم کیا تھا مگر مؤا پھر نکل آیا۔
....Oشیخ رشید:ن لیگ عدلیہ اور فوج سے ٹکرانے جا رہی ہے،
سر دست تو وہ آپ سے ٹکرانے جا رہی ہے۔
....Oعمران خان:سیتا وائٹ نے ن لیگ سے پیسے لینے کا اعتراف کیا۔
یہ سیتا اور کرشن کی کہانی کہاں سے نکل آئی؟

تازہ ترین