• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی پی او2002‘کچھ شقیں نواز شریف اور بےنظیرکو سزا دینے کیلئے بنائی گئی

اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)پولیٹیکل پارٹیز آرڈر(پی پی او)2002کی کچھ شقیں پرویز مشرف نے خصوصی طور پر نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو سزا دینے کے لیے بنائی تھیں، جو اس وقت جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، معزول وزیر اعظم دوسری مرتبہ اس کا شکار ہوئے ہیں کیوں کہ انہیں مسلم لیگ(ن)کی سربراہی کی اجازت نہیں ملی ہے۔تاہم،معزول وزیر اعظم عہدہ نہ رکھنے کے باوجود مسلم لیگ(ن)کےپارٹی معاملات چلائیں گے۔دریں اثناءسینیٹرسردار یعقوب ناصر کو مسلم لیگ(ن)کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی نے پارٹی کا قائم مقام صدر منتخب کرلیا ہے۔

وہ پہلے ہی مسلم لیگ(ن) کے مرکزی نائب صدر تھے، گو کہ نواز شریف کو کسی بھی عوامی یا سیاسی عہدے سے معزول اور نااہل کردیا گیا ہے، تاہم ان کے مسلم لیگ(ن)پر مکمل گرفت کے حوال سے کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا ہے۔یعقوب ناصر کو عبوری مدت کے لیے پارٹی کا اہم عہدہ دے کر مسلم لیگ(ن)نے بلوچستان کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے، جس کی عام طور پر وفاق، حکومت اور سیاست میں نمائندگی کم ہوتی ہے۔یعقوب ناصر اپنی پارٹی سے مخلص ہیں اور کئی دہائیوں سے مسلم لیگ(ن)کے ساتھ ہیں۔وہ متعدد مرتبہ قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں منتخب ہوئے ہیں۔تاہم، 2013کے عام انتخابات میں انہیں شکست ہوئی تھی۔البتہ نواز شریف نے انہیں اسلام آباد سے سینیٹر بنایا تھا۔

پی پی او کا ہدف نواز شریف اور مرحومہ بےنظیر بھٹو تھیں، جس کے ذریعے انہیں پارٹی کی قیادت سے روکا گیا تھا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ایسی سیاسی شخصیات کو رجسٹر کرنے سے باز رکھا گیا تھا، اس طرح وہ کسی بھی قسم کے انتخابات کے لیے نااہل ہوگئے تھے۔البتہ بے نظیر بھٹو نے جلا وطن ہونےکے باوجود پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن شپ نہیں چھوڑی تھی اور یہ عہدہ اپنے پاس ہی رکھا تھا۔اسی وجہ سے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پیپلز پارٹی کو رجسٹر کرنے سے انکار کردیا تھا۔

اسی سبب پارٹی قیادت نے پی پی پی (پارلیمنٹیرین)بنانے کا فیصلہ کیا، جس کے  چیئرمین مخدوم امین فہیم(مرحوم) تھے، جو اپنی وفات تک اس عہدے پر برقرار رہے۔قانون کے تحت کوئی بھی سیاسی جماعت جب تک الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجسٹر نہ ہو وہ انتخابات میں حصہ نہیں لےسکتی، صرف یہ ہی نہیں بلکہ ہر سیاسی جماعت پی پی اوپر عمل کرنے کی پابند ہے۔10دسمبر، 2000کو سعودی عرب جلاوطن ہونے سے قبل نواز شریف نے مخدوم جاوید ہاشمی اور راجا ظفر الحق کو مسلم لیگ(ن)کا صدر اور چیئرمین بنایا تھا۔اس وقت سابق وزیر اعظم طیارہ ہائی جیکنگ اور ہیلی کاپٹر کیس میں مجرم ٹھہرائے گئے تھے  اور مشرف کے دور میں نااہل قرار دیئے گئے تھے۔

پی پی او کا اطلاق 28جون، 2002کو ہوا تھا۔جس کے بعد شہباز شریف کو مسلم لیگ(ن)کا صدر بنایا گیا تھا، جنہوں نے اگلے انتخابات اپنے معمول کے نشان کے تحت لڑے تھے۔یہ دوسرا موقع ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی کی جگہ لیں گے۔پی پی او کے سیکشن 5کے مطابق، ہر شہری جو سروس آف پاکستان میں نہ ہو، اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ کوئی بھی سیاسی جماعت بنائے ، یا سیاسی جماعت کا رکن بنے، یا کسی بھی طرح اس سے منسلک ہو، یا اس کی سرگرمیوں میں حصہ لےیا اس کا عہدے دار منتخب ہو۔تاہم کوئی بھی شخص سیاسی جماعت کا عہدیدار اس وقت منتخب نہیں ہوسکتا، جب تک وہ اس کا اہل نہ ہوجائے یا پھر اسے منتخب رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے آئین کے آرٹیکل 63یا کسی بھی قانون کے تحت نااہل کیا گیا ہو۔

جہاں بھی کوئی شخص سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرتا ہےتو اس کا نام سیاسی جماعت کے ریکارڈ میں رکن کے طور پر شامل کیا جائے گا اور اسے رکنیت کا کارڈ جاری کیا جائے گا یا پھر کوئی بھی ایسا دستاویز جس سے اس کی کسی سیاسی جماعت کی رکنیت ظاہر ہوتی ہو۔کوئی بھی شخصایک سے ذائد سیاسی جماعت کا رکن نہیں بن سکتااور اسے اس کے ریکارڈ تک رسائی کا حق حاصل ہوگا۔

اس حقیقت سے قطع نظر کہ یعقوب ناصر مسلم لیگ(ن)کے عارضی سربراہ ہیں یا شہباز شریف مستقل طور پر اس کی سربراہی کریں گے، پارٹی کو موثر انداز میں نوا زشریف ہی چلائیں گے، وہ ہی تنہا طور پر نہ صرف مسلم لیگ (ن)بلکہ اس کی حکومت کےبھی فیصلہ ساز ہوں گے ۔

تازہ ترین