• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنوبی ایشیا کے دفاعی ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ خطے میں کئی تنازعات ایسے ہیں جنہیں نوع انسانی کے مفاد میں افہام و تفہیم کے جذبے سے حل نہ کیا گیا تو دنیا کی کم سے کم 40فیصد آبادی ایٹمی جنگ کے خطرے سے دو چار ہو سکتی ہے۔ ان تنازعات میں سرفہرست ریاست جموں و کشمیر کے بڑے حصے پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے، جس سے آزادی کے لئے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام بڑی بے جگری سے حق خود ارادیت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پاکستان بھی اس تنازعے کا سرگرم فریق ہے۔ اس مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان چار جنگیں لڑی جا چکی ہیں اور اب بھی کنٹرول لائن پر جنگ جیسی صورت حال ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر سے آنے والے پاکستان کے حصے کے دریائوں کا پانی روکنے کے لئے کئی ڈیم بنا رہا ہے جسے پاکستان بجا طور پر بھارت کی آبی جارحیت قرار دیتا ہے۔ بھارت چینی علاقے تبت پر بھی اپنا حق جتا رہا ہے، نیفا کے علاقے پر 1962ء میں دونوں ملکوں کے درمیان خونریز جنگ ہو چکی ہے جس میں بھارت کو بری طرح منہ کی کھانی پڑی تھی۔ لداخ میں بھی چینی اور بھارتی افواج آمنے سامنے ہیں، حال ہی میں ڈوکلام کےمتنازع علاقے میں جس پر بھارت کے زیر اثر چھوٹے سے ملک بھوٹان کا دعویٰ ہے، چینی فوجوں کو نکالنے کے لئے بھارتی فوج داخل ہو گئی چین نے اس پر سخت احتجاج کیا اور بھارتی فوجیوں کی اکثریت کو وہاں سے مار بھگایا تاہم وہاں صورت حال ابھی تک کشیدہ ہے اور گزشتہ روز دونوں ملکوں کے فوجیوں نے ایک دوسرے پر زبردست پتھرائو کیا جو آگے چل کر مسلح تصادم کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ جس کی وجہ سے چین اور بھارت میں تصادم ہو سکتا ہے پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ ہے۔ راہداری منصوبے میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے بھی شامل ہیں جن پر بھارت بلاجواز دعویٰ کرتا ہے بھارت کو یہ تکلیف بھی ہے کہ اس منصوبے کی کامیابی سے نہ صرف پاکستان میں معاشی انقلاب آجائے گا بلکہ چین کو گوادر کے سمندر تک رسائی ملنے سے یورپ اور افریقہ کے ممالک سے اس کی تجارت کا راستہ کھل جائے گا اس کے نتیجے میں نہ صرف جنوبی ایشیا میں بھارتی بالادستی کا خواب چکنا چور ہو جائے گا بلکہ بیرونی دنیا میں بھی اس کے عزائم کو نقصان پہنچے گا۔ دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ ان وجوہات کی بنا پر بھارت چین سے جنگ چھیڑنے کی حماقت کر سکتا ہے، ایسا ہو گیا تو پاکستان بھی اس جنگ سے لاتعلق نہیں رہ سکے گا یہ جنگ انتہائی خوفناک ہو گی کیونکہ اس میں تین ایٹمی ممالک زمین، فضا اور سمندر میں اپنے تباہ کن ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔ تینوں ملکوں کی آبادی تقریباً پونے تین ارب نفوس پر مشتمل ہے جو دنیا کی مجموعی آبادی کا 40فیصد ہے۔ چین اور بھارت میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کا معاہدہ موجود ہے مگر بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کہہ چکے ہیں کہ بھارت کو اس معاہدے پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ گویا بھارت اس معاملے میں پہل کر سکتا ہے ایسی صورت میں چین بھی خاموش نہیں رہے گا اور پاکستان بھی اپنے دفاع میں ایٹمی ہتھیار بروئے کار لا سکتا ہے۔ بنگلہ دیش اگرچہ بھارت کا طفیلی ملک ہے مگر اس کے کچھ علاقوں پر بھارت نے قبضہ کر رکھا ہے، اس لئے ایک بڑی جنگ کی صورت میں وہ بھی متاثر ہو گا۔ ایسی خوفناک صورت حال میں امریکہ اور روس کے بھی میدان میں کودنے کے خطرات موجود ہیں اس وقت بظاہر بھارت اور چین میں عملی سے زیادہ لفظی جنگ جاری ہے مگر بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور ہندو انتہاپسندی کی پالیسی کی وجہ سے حالات خطرناک صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ اس لئے عالمی برادری کو اس پر کڑی نظر رکھنا ہوگی خصوصاً پاکستان کو مستقبل کے خطرات سے نمنٹنے کے لئے پیش بندی کرنا ہو گی۔ اقوام متحدہ کو اس صورت حال کا ادراک کرنا چاہئے اور بھارت کو خطے میں محاذ آرائی کی فضا پیدا کرنے سے روکنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ غفلت کی صورت میں عالمی جنگ کا امکان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

تازہ ترین