• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حلقہ این اے120وقت وقت کی بات ہے، کبھی پیپلز پارٹی’’کھمبا‘‘ کھڑا کردیتی تو لوگ اسے ووٹ دے دیتے کہ یہی ہماری جمہوریت کی اصل اوقات اور اس کا بدصورت حسن ہے۔ پھر کرٹسی جنرل ضیاء الحق ،خاکی مینوفیکچرڈ میاں نواز پہ وہ وقت آیا کہ کھمبا بھی کھڑا کرتے تو اسے ووٹ مل جاتے لیکن ا ب صورتحال رنگین سے سنگین ہوتی جارہی ہے۔ میاں نواز خود نااہل، ان کی اہلیہ بیمار اور بیٹی میدان میں اور وہ بھی اس طرح کہ گلی گلی کیا گھر گھر جانے پر مجبور۔ گندی گلیاں، میلے کچیلے غریب لوگ اور ان کے سرونٹ کوارٹرز سے بھی کئی گنا بدتر ان کے وہ گھر جن کے بارے ناصر کاظمی کہتا ہے؎ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصراداسی بال کھولے سو رہی ہےجنہوں نے چار سال انہیں منہ نہ لگایا، اب گلے لگارہے ہیں اور جذباتی استحصال اپنے عروج پر ہے تو ایسی جمہوریت کیسی آگ میں جھونکی جائے؟ مریم نواز لوگوں سے پوچھ رہی ہیں........’’کیا آپ ’’اپنی اماں‘‘ کو ووٹ دیں گے؟‘‘کہاں حسن، حسین اور خود مریم........کہاں یہ افتادگان خاک جو ہر بار کسی نہ کسی مشکل میں اس آدم خور موروثی جمہوریت کی خوراک بنتے ہیں۔ پھر زندہ ہوتے ہیں پھر مرتے ہیں، پھر زندہ ہوتے ہیں، پھر مرتے ہیں اور یہی وہ بھیانک کھیل ہے جسے میں ووٹ خریدنا، ووٹ چھیننا اور ووٹ بٹورنا کہتا ہوں۔پارک لین اور پاناما چند دن کے لئے ان پرپیچ، گھٹن زدہ، گٹر ابلتی گلیوں میں منہ پر رومال، دل پر پتھر رکھ کر گھومے گا اور ہار جیت دونوں صورت میں پھر اگلے الیکشن تک پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھے گا۔ جو پیٹ سے آگے نہیں دیکھ سکتے وہ ناک سے آگے بھی نہیں دیکھ سکتے لیکن کومبی نیشن کمال کا ہے کہ ایک طرف نوکریوں اور نوٹوں کے گداگر تو دوسری طرف ووٹوں کے بھکاری اور اس کھیل کو نام دیا جاتا ہے جمہوریت کا۔ افسوس اس بات کا کہ کیرئیر کا آغاز ہی جھوٹ سے ہورہا ہے۔ کیا پاناما اور اقامہ واقعی بہانہ ہیں؟ اس سے بڑا جھوٹ ممکن نہیں لیکن خیر ہے چند ہفتوں کے اندر اندر ایسی ایسی وارداتوں کا انکشاف ہوگا جو اندھوں کو بھی صاف دکھائی دیں گی اور بہروں کو بھی صاف سنائی دیں گی کہ فی الحال تو حبیب بینک نیویارک ہی کافی ہے جس کا کھرا جاتی امرا تک جاتا ہے لیکن دھیرج، ذرا دھیمے چلو، اونچی نیچی ٹوٹی پھوٹی گلیوں میں بگٹٹ دوڑنے سے پائوں میں موچ آجائے گی۔ادھر حامد میر کے ساتھ بیپر کے دوران ممتاز صحافی اور جیو نیوز لاہور کے بیوروچیف رئیس انصاری نے ملتان میٹرو کے حوالہ سے منی لانڈرنگ کا ایک نیا کٹا کھول دیا ہے جس کی تفصیلات میں جانا ذرا قبل از وقت ہے۔ فی الحال صرف تیل اور تیل کی دھار دیکھنے پر اکتفا کرتے ہوئے واپس حلقہ این اے120کی طرف چلتے ہیں جہاں ضابطہ اخلاق کے ساتھ ہر قسم کی بداخلاقی کے سرعام مظاہرے جاری ہیں۔ الیکشن کمیشن نے بھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں پر چیف سیکرٹری کو نوٹس جاری کرتے ہوئے48 گھنٹوں میں وضاحت طلب کرلی ہے۔ ریٹرننگ افسر کی جانب سے چیف سیکرٹری کو مراسلے میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کی جانب سے یہ شکایت کی گئی ہے کہ مریم نواز وزیر اعلیٰ ہائوس اور جاتی امرا کو الیکشن کیمپ کے طور پر استعمال کررہی ہیں اور ساتھ ہی ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال بھی جاری ہے۔ترقیاتی کاموں کے لئے اندھا دھند فنڈز جاری کئے جارہے ہیں لیکن یہ سب تو جمہوریت کا حسن ہے اور اس حسن کی سرعام نمائش جاری رہے گی۔عمران خان نے عجیب بات کی ہے کہ الیکشن این اے120کا نتیجہ یہ فیصلہ کرے گا کہ قوم عدلیہ کے ساتھ ہے یا سب سے بڑے مافیا کے ساتھ تو عمران کو علم ہونا چاہئے کہ یہ قطعاً ضروری نہیں کہ دل جن کے ساتھ ہوں، تلواریں بھی ان کے ساتھ ہوں کیونکہ معاملہ مجبوریوں اور مفادات کے ساتھ ساتھ’’الیکشن ٹیکنالوجی‘‘ کا بھی ہے جس میں ن لیگ کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے پانچویں جماعت کے بچے کو کسی پی ایچ ڈی کے مقابلہ پر اتار دیا جائے۔ عوام عدلیہ کے ساتھ ہیں اور عمران کے ساتھ بھی۔ اصل مسئلہ’’ٹیکنالوجی‘‘ کا توڑ ہے جس سے لڑنا عوام کے بس کی بات نہیں اس لئے یہ کہنا سراسر زیادتی ہے کہ 17ستمبر کو یہ فیصلہ ہوجائے گا کہ عوام کس کے ساتھ ہیں، سوال یہ ہے کہ’’ٹیکنالوجی‘‘ کس کے ساتھ ہے؟حلقہ این اے120میں ہاتھیوں کی ہتھ جوڑی پر گفتگو کے دوران’’گھاس‘‘ کا ذکر نہ کرنا بہت بڑا فائول ہوگا۔’’گھاس‘‘ سے میری مراد پیپلز پارٹی مرحومہ مغفورہ ہے جس کے نوخیز چیئرمین بلاول بھٹو کے بارے سنا ہے کہ وہ بھی این اے120میں انتخابی مہم کی نگرانی کے لئے ’’بقلم خود‘‘ لاہور پہنچ گئے ہیں تو میرا خیال ہے انتخابی نتائج کسی بھی سیاسی نابالغ کو بالغ بنادینے کے لئے کافی ہوں گے۔پیپلز پارٹی اس مقابلہ میںAlso Ranبھی ہو تو غنیمت جانئے، زر ضمانت ہی ضبطی سے بچ جائے تو بڑی بات ہوگی۔

تازہ ترین