• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دودھ میں ملاوٹ کبھی پانی کی صورت میں ہوتی تھی مگر آج کیمیکلز اوریوریا سے بنا لیکویڈ دودھ کے نام پر ملک کے کروڑوں شہریوں کو پلایا جارہا ہے۔لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے بعد پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ٹی وائٹنرز کیلئے نئی پیکنگ کی منظوری دی تھی جس کے تحت ڈبے پر’’یہ دودھ نہیں‘‘ کی وارننگ واضح طور پر لکھا جانا ضروری ہے۔یکم جون سے اسے ملک بھر میں لاگو کردیاگیاہے۔یہ کارروائی اس لئے کی گئی کہ دودھ کے نام پر ٹی وائٹنر کااستعمال صارفین کی صحت کیلئے نقصان کاباعث بن رہا تھا۔ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ روزانہ ملک بھر میں دودھ کے نام پر لاکھوں لیٹر ’’ٹی وائٹنر‘‘مخصوص ٹینکرز کے ذریعے دیہات سے شہروں کو سپلائی کیاجارہاہے ۔پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ایک ٹیم نے مضافات سے راولپنڈی سپلائی کیاجانے والا کیمیکل اورپاؤڈر سے تیار 5ہزار لیٹر مضرصحت یہ ٹی وائٹنر پکڑ لیااورتمام تر ٹیسٹوں کے بعد اس میں کیمیکل اوریوریا کی ملاوٹ ثابٹ ہوگئی جس کے استعمال سے سیکڑوں لوگ متاثر ہوسکتے تھے۔اگرچہ اس وقت صرف پنجاب کی سطح پر فوڈ اتھارٹی متحرک ہے لیکن وہ بھی ملاوٹ مافیا کے لمبے ہاتھوں کی وجہ سے انتہائی محدود سطح تک کام کرنے پرمجبور ہے۔جبکہ دوسرے صوبوں میں حالات اس سے بھی زیادہ مخدوش ہیں اورملک کی20کروڑ کی آبادی دودھ کے نام پر انجانے میں زہریلے کیمیکلز پی رہی ہے۔گزشتہ دوتین دہائیوںکے دوران اس گھناؤنے کاروبار نے ملک بھر میں اپنی جڑیں مضبوط کیں جس سے ہیپاٹائٹس جیسے امراض تیز ی سے پھیلے۔یہ کاروبار صرف’’دودھ‘‘ بیچنے والوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے بنانے والے،اس کافارمولا تیار کرنے والے ماہرین اورترغیب دینے اور سرپرستی کرنے والے سرکاری اہل کار سب اس جرم میں شریک ہیں۔اس کا قلع قمع کرنے کیلئے نہ صرف سائنسی وتکنیکی بنیادوں پرقانون سازی ہونی چاہئے بلکہ متعلقہ محکموں میں ایسے فرض شناس اہلکاروں کے سپرد یہ کام کیا جانا چاہئے جو قانون کی پابندی کرانا جانتے ہوں۔

تازہ ترین