• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرف کے زرداری پر الزامات میں بظاہر کوئی وزن نظر نہیں آتا

Todays Print

اسلام آباد (طارق بٹ) سابق صدر پرویز مشرف کے آصف زرداری پر بے نظیر بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے الزامات کے بعد پیپلز پارٹی کے جوابی وار سے نہ صرف مسلم لیگ ن خوش ہے بلکہ ان تمام لوگوں کی بھی دلجوئی ہوئی ہے جو جمہوریت کا تمسخر اڑانے والے آئین شکن سابق آمر کو عبرت کی مثال بنانے کے خواہاں تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ 12اکتوبر 1999کو اپنی حکومت کے خاتمے اور اپنے رہنمائوں کی تذلیل کی وجہ سے پرویز مشرف سے مخاصمانہ رویہ رکھتی ہے ۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف تو مشرف کے جرائم کی وجہ سے اسے پابند سلاسل دیکھنے کے خواہاں بھی ہیں ۔ تاہم وہ مشرف کے مضبوط پس منظر کی وجہ سے اپنی اس خواہش کو حقیقت میں نہیں بدل سکے۔ اور انہیں اپنی حکومت کے دوران مقتدر قوتوں کے دبائو پر مشرف کو باہر جانے کی اجازت دینا پڑی۔ مشرف نے خود ایک ٹی وی پروگرام میں یہ راز طشت از بام کیا تھا کہ سابق سپہ سالار راحیل شریف نے ان کے بیرون ملک روانگی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ مشرف کی بیرون ملک روانگی کے معاملے پر ن لیگ کو ہمیشہ دیوار سے لگایا گیا حالانکہ وہ کچھ اورچاہتی تھی ۔

تاہم سابق آمر کی ملک سے محفوظ روانگی پر اپنی ہار کے باوجود ان کے بیانات میں تبدیلی نہیں آئی ۔ جب بھی لیگی قیادت کو موقع ملتا ہے وہ بری طرح مشرف کو لتاڑتے ہیں اور ہمیشہ اسے وطن واپس آکر عدالتوں کا سامنا کرنے کے طعنے دیتے ہیں۔ اب جبکہ مشرف کی طرف سے مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزامات آصف زرداری پر لگانے کے بعد سابق آمر کیساتھ سینگ پھنسا چکی ہے تو لیگی قیادت بھی مشرف کی درگت بننے پر تسکین محسوس کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی مشرف مخالف مہم ملکی سیاسی و جمہوری منظرنامے کے لئے بالکل درست ہے کیونکہ سابق آمر ٹھیک اسی سلوک کا مستحق ہے۔ پہلے صرف ن لیگ مشرف کے متعلق سخت رویہ رکھتی تھی لیکن اب پیپلزپارٹی بھی یہی جذبات رکھتی ہے۔ یہ ردعمل صرف اور صرف ایک ایشو یعنی بھٹوز کے قتل کو زرداری سے جوڑنے پر سامنے آیا ہے لیکن اُس کے دور حکومت میں ملکی معیشت اوردیگر شعبوں لگنے والے بڑے کھائو بھرنے میں شاید کافی وقت لگے۔

اس نے قوم کو اس وقت دھوکہ دیا جب نائن الیون کے بعد واشنگٹن سےمحض ایک فون کال پر امریکی مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیےتھے۔ امریکیوں نےشائد خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا کہ مشرف اتنی آسانی سے مان جائے گا۔ایسا کرکے مشرف نے ان آمروں کی تائید کی جو ہمیشہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور اقتدار کے لالچ میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ وہ جعلی الیکشن ہوں یا ریفرنڈم، سیاسی طور پر اقتدار کو قانونی درجہ دینے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔

کیونکہ انہیں عوامی تائید نہ ملنا ہی ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔مشرف کے بدنیتی پر مبنی الزامات سن کر شائد زرداری کو مشرف کو دیئے گئے گارڈ آف آنر پر پچھتارہے ہونگے ، جو انہوں نے مشرف کو صدارت چھوڑنے پر دیا تھا جس پر ملک بھر میں پیپلزپارٹی تضحیک کا نشانہ بنی تھی۔بظاہر مشرف کے زرداری پر لگائے گئے الزامات میں ذرہ برابر سچائی نظر نہیں آتی کیونکہ اگر ایسا ہوتا اور ان پر لگائے جانے والے الزامات میں کوئی وزن اور مطابقت ہوتی تو جب بینظیر بھٹو کا 27دسمبر 2007ء کو قتل ہوا تب وہ ان الزامات کو زرداری کے خلاف بآسانی استعمال کر سکتے تھے کیونکہ بینظیر کا قتل مشرف کی صدارت چھوڑنے سے قریباً آٹھ ماہ قبل ہوا تھا۔  اس وقت تو مشرف حکومت نے سارا الزام تحریک طالبان پاکستان پر ڈال کر دیا تھا ۔

بعد ازاں اپنے دعوئوں کو حقیقت کا رنگ دینے کیلئے دہشتگردوں کے مابین ہونیوالی ٹیلی فونک گفتگوکی ٹیپ بھی جاری کر دی تھی ۔کوئی بھی شخص مشرف کے نظریات ماننے کیلئے تیار نہیں کیونکہ اس نے اپنے آٹھ سالہ غیر آئینی دور اقتدارمیں بھی ایسی لفظی گولہ باری جاری رکھی تھی جسے اسکے کاسہ لیس اور حاشیہ نشین ہمیشہ پاکستان کے محافظ کے طور پر پیش کرتے تھے۔

مشرف کے زرداری پر الزامات سے کسی کو دلچسپی نہیں  جبکہ بی بی کا قتل مشرف حکومت میں ہی ہوا تھا۔ تب اس نے زرداری کے خلاف کبھی بھی ایسا الزام نہیں لگایا ۔مشرف کے اس جارحانہ پن کی ٹائمنگ نے بہت سے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیاہے۔ بظاہر مشرف کے اشتعال کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ زرداری نے لاہور ہائیکورٹ میں بے نظیر قتل کیس میں سابق جنرل کو سزائے موت دینے اور راولپنڈی انسداد دہشت گردی عدالت کےفیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے، انسداد دہشت گردی عدالت نے اس کیس میں 2سینئر پولیس افسران کو17سال قید کی سزا سنائی تھی ۔ اور 5ملزمان کو بری کر دیاتھا۔مشرف نےاپنے اشتعال انگیز بیانات اس دن دیئے جب ہائیکورٹ نے اپیل سماعت کیلئے منظور کرلی۔

تازہ ترین