• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غالباً یہ انسانی فطرت ہے یا عادت ہے کہ وہ وقت کی ندی میں بہتا رہتا ہے، حالات کے تقاضوں اور روزمرہ کی ضروریات میں جکڑا رہتا ہے اور غور و فکر کی نعمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ ورنہ اگر انسان غورو فکر اور تدبر کی نگاہیں کھلی رکھے اور ذہن کو اس عمل کا عادی کرلے تو ہر روز اس کی زندگی میں نئے نئے تجربات کے چراغ جلیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ اسے زندگی کے نئے سبق سیکھنے کا موقع ملے بلکہ اسے قدرت کے نظام اور آسمانی فیصلوں کا بھی ادراک حاصل ہو۔ ہم سب سمجھتے ہیں کہ زندگی میں ہر شے عارضی ہے، خود زندگی بھی عارضی ہے اسی طرح جوانی، صحت، حسن، دولت، اقتدار، شہرت وغیرہ بھی عارضی ہیں اور خوش قسمت ہیں وہ انسان جو اس راز کو سمجھ کر اور دل و دماغ سے وابستہ کر کے زندگی گزارتے ہیں۔ انہیں ہر لمحے خوف خدا، اور یوم حساب جوابدہی کا احساس اپنی گرفت میں رکھتا ہے چنانچہ وہ ہر ایسے کام سے اجتناب کرتے ہیں جن سے اعمال نامہ خراب ہو تا ہو۔ ایسے لوگوں کو نہ دولت و اقتدار کا نشہ بہکاتا ہے، نہ وہ کسی سے زیادتی کرتے ہیں اور نہ ہی نیکی و ثواب کا کوئی موقع ضائع کرتے ہیں۔
اگر آپ اپنے اردگرد کے معاملات اور زندگی کے عروج و زوال کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے رہیں، سورج کے طلوع اور غروب پہ بھی غور کرتے رہیں تو آپ کو ہر لمحہ یہ سبق ملے گا کہ زندگی میں کچھ بھی مستقل اور ابدی نہیں ہے، سوائے نیکی اور اچھے اعمال کے۔ انسان دنیا سے رخصت بھی ہو جائے تو اچھے اور نیک اعمال کی خوشبو باقی رہ جاتی ہے۔ اس خوشبو کا عرصہ بھی خدمت یا نیکی کے برابر ہی ہوتا ہے۔ کچھ نیکیوں اور خدمات کی عمر صدیوں پر محیط ہوتی ہے تو کچھ اچھے اعمال کی عمر فقط چند ماہ، چند برس یا ایک دو دہائیوں تک محدود ہوتی ہے۔
آپ سوچیں گے مجھے یہ موضوع کیونکر سوجھا اور میں نے کالم نگاری کی روایت سے انحراف کر کے آج آپ کی حال مست، مال مست زندگی کے رنگ میں بھنگ ڈالنا کیوں شروع کردیا؟ (یہ سطور پیر کی صبح لکھی گئیں)آج میاں نوازشریف احتساب عدالت میں پیش ہوں گے اور ان پر فرد جرم عائد ہوگی۔ اب تک وہ پوچھتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ آج ان کو اس کا جواب ملے گا اور وہ جواب الزامات کی شکل میں ہوگا۔ یہ الزامات ڈھکے چھپے یا خفیہ نہیں کیونکہ ان کا ذکر سپریم کورٹ کے سامنے بھی ہوچکا ہے اور پھر انہی الزامات کی تحقیق کے لئے جے آئی ٹی بنائی گئی تھی اس پیش رفت پہ آپ مختلف تجزیات پڑھتے جائیے اور سنتے جائیے لیکن میری نظر اس منظر کے دوسرے پہلو پہ اٹک گئی ہے۔ میں سوچتا ہوں ابھی چند ماہ پہلے میاں نوازشریف کے اقتدار کا طوطی بولتا تھا۔ وہ ملک کے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے تھے اور انہیں نہایت طاقتور وزیراعظم سمجھا جاتا تھا کیونکہ قومی اسمبلی میں انہیں بہت بڑی حمایت حاصل تھی۔ ہر سیاستدان، ہر رکن پارلیمنٹ، ہر کارکن، ہر سرکاری افسر غرض کہ ہر غرض مند اپنی حاجت اور غرض کے لئے ان کی طرف دیکھتا تھا اور اگر موقع ملتا تو ہاتھ پھیلاتا تھا۔ کسی کو وزارت و سفارت کی حاجت تھی، کسی کو بڑے عہدے کےحصول کی خواہش بے چین رکھتی تھی، کسی کو ٹکٹ درکار تھا، کسی کا کہیں کام پھنسا ہوا تھا اور کسی کو دولت کمانے کے لئے ان کی فقط ایک مسکراہٹ یا گردن میں ہلکے سے خم یعنی ہاں کی ضرورت تھی۔ میاں صاحب کے ہر طرف حد نظر تک خوشامدیوں، حواریوں، حاجت مندوں اور ہاتھ پھیلانے والوں کا ہجوم نظر آتا تھا۔ میاں صاحب دوبار پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے اور تین بار وزیراعظم بنے۔ یوں لگتا تھا کہ وہ ’’قیامت‘‘ تک اقتدار میں رہیں گے اور اقتدار بانٹتے رہیں گے۔ ان کے بعد ان کی بیٹی یا خاندان کا کوئی اور فرد تخت نشین ہوگا کیونکہ اقتدار ان کے گھر کی لونڈی ہے جو خاندان سے باہر جا ہی نہیں سکتی۔ وہ قوت اور اختیارات کا سرچشمہ تھے اور بڑے بڑے افسران ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے۔ کہا جاتا ہے کہ عدلیہ بھی ان کی مٹھی میں بند تھی اور فیصلے ان سے پوچھ کر کرتی تھی۔ ملک قیوم سابق چیف جسٹس پنجاب تو سیف الرحمٰن یا وزیراعظم کے بھائی سے بھی بات کرتے تو ان کی زبان لڑکھڑاجاتی تھی اور وہ ان سے حکم لینے کو ہی اپنا اعزاز سمجھتے تھے۔ کئی مقدمات عدلیہ کی مبینہ ملی بھگت سے بند پڑے تھے، کچھ پہ پردہ ڈال دیا گیا تھا اور اگر کبھی کوئی مقدمہ شنوائی کے لئے فہرست میں آتا تو جج صاحب کی معذرت کی خبر اخبارات میں چھپتی اور بہت کچھ بیان کر جاتی۔اس کی بنیادی وجہ ان جج صاحبان کا اظہار تشکر و ممنونیت تھا کیونکہ وہ میاں صاحب کی نگاہ کرم سے ہی جج بنے تھے۔
ذرا غور کیجئے اور زندگی کی بے ثباتی سے سبق سیکھئے کہ آج طاقت و اختیار کا وہی سرچشمہ اور پاکستان کا رئیس ترین اور طاقتور ترین وزیراعظم انیس یا بیس گریڈ کے جج کی عدالت میں بے بس کھڑا ہے اور دوسروں کی حاجتیں، خواہشیں اور حسرتیں پوری کرنے والا آج خود انصاف کا طلبگار ہے۔ کل تک مسلم لیگ (ن) ان کے اسم گرامی سے موسوم تھی، انکی ملکیت اور خادمہ سمجھی جاتی تھی اور اس کے عہدے ان کی نگاہ کرم کے مرہون منت تھے آج وہ اسی مسلم لیگ کی صدارت حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ چمک اور دمک نے ترمیمی بل سینیٹ سے پاس کرا دیا ہے جس سے پھر ثابت ہوگیا ہے کہ میاں صاحب بہرحال خوش قسمت انسان ہیں کیونکہ سینیٹ میں اس ترمیم کا پاس ہونا بظاہر ناممکن تھا۔ اب اس مسودہ قانون کو قومی اسمبلی سے منظور کروا کر چند لمحوں میں صدر مملکت سے دستخط کروا لئے جائیں گے اور کل مسلم لیگ (ن) اپنے بانی کو اپنا صدر منتخب کرے گی۔ ظاہر ہے کہ اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔ فی الحال اس پر تبصرہ مناسب نہیں اور نہ ہی یہ میرا موضوع ہے۔ یہ بہرحال ظاہر ہے کہ میاں صاحب مزید کچھ عرصہ غیر یقینی صورت، اضطراب اور بے سکونی کا شکار رہیں گے، مستقبل کے تفکرات اور محترمہ کلثوم نواز کی علالت انہیں ذہنی سکون سے محروم رکھے گی۔ دعا ہے اللہ پاک بیگم کلثوم نواز کو شفائے کاملہ عطا فرمائے اورمیاں صاحب کو قلبی و ذہنی سکون سے مالا مال کرے کہ انہوں نے اس ملک کی خدمت کی ہے اور وہ لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔
کبھی پاکستان میں ایوب خان کا طوطی بولتا تھا، کبھی بھٹو صاحب بلا شرکت غیرے طاقتور ترین حکمران سمجھتے جاتے تھے، کبھی یوں لگتا تھا جیسے ضیاء الحق کا خوفناک دور حکومت کبھی ختم نہ ہوگا، کبھی جنرل مشرف موت تک حکمرانی کے منصوبے بناتا تھا اور کبھی یہاں محترمہ بے نظیر اور میاں نوازشریف اقتدار۔ اقتدارِ کلی کے وارث سمجھے جاتےہیں۔ سچ یہ ہے کہ زندگی عارضی ہے اور دنیا میں کسی شے کو دوام نہیں سوائے عمل اور نیکی کے۔ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے اقتدار اور اقتدار کے تکبر کو خاک میں ملتے دیکھتے ہیں لیکن سبق حاصل نہیں کرتے۔ ہم عارضی چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور پائیدار کاموں کے لئے ہمیں فرصت ہی نہیں۔ کیا یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔ کیا اسی لئے قرآن نے فرمایا ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔ کیا ہم خسارے میں نہیں؟
ڈوبتے سورج کو وقت شام دیکھ

تازہ ترین