• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پورے کراچی کو ایک چھلاوے نے پریشان کر رکھا ہے۔چھلاوے کے سامنے پولیس بے بس ہے شاید اسی لئے سندھ کے وزیر اعلیٰ کو یہ کہنا پڑا کہ ’’ایسا تو فلموں میں ہوتا ہے ‘‘ پولیس چھلاوے کو نفسیاتی مریض قرار دینے پر بضد ہے اور ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ ایسا نفسیاتی مریض کر ہی نہیں سکتا، یہ کوئی اور ہے یہ تو مجرمانہ کام ہے ویسے حالات بتا رہے ہیں کہ اس چھلاوے نے کہیں نہ کہیں سے ٹریننگ ضرور حاصل کر رکھی ہے، یہ باقاعدہ ٹرینڈ اجرتی مجرم ہے ایسا کام تربیت یافتہ ہی کر سکتے ہیں مگر لوگ معاملات کی تہہ تک پہنچنے کیلئے سوچتے کہاں ہیں؟
دو روز پیشتر وزراء کو خفت کا سامنا کرنا پڑا وہ جو بڑے بڑے دعوے کرنے والے تھے انہیں معذرت خواہانہ انداز میں پلٹنا پڑا آج اور موقف تھا، کل اور اختیار کرنا پڑا زاہد حامد اور انوشے رحمان کا لہرائو دھرا کا دھرا رہ گیا وقت کے بہائو نے بدل دیا احسن اقبال اور وہ بھی بدل گیا جو کبھی چودھری پرویز الٰہی کے جلسوں میں دھمال کا مظاہرہ کیا کرتا تھا اس میں شک نہیں کہ پوری قومی اسمبلی میں اکیلا شیخ رشید چھایا رہا، اس نے مذہب کے ٹھیکیداروں کو پچھاڑ کر رکھ دیا وہ پوری قوم کی آواز بن گیا اب وہ اسمبلی پھر سے عقیدہ ختم نبوت کی شق کو شامل کر چکی ہے لوگ جلد بازی میں عمل کرتے ہیں مگر سوچتے نہیں اگر جلد بازی نہ کی جائے اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا جائے تو تمام راستے مثبت رہتے ہیں۔
مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی عدالت میں ایک مقدمہ آیا مقدمہ قتل کا تھا قاتل اقرار کر رہا تھا مگر فیصلہ نہیں ہو رہا تھا ایک غلام نے اپنے مالک کو قتل کر دیا تھا جب خلیفہ وقت نے پوچھا کہ ’’اس نے اپنے مالک کو قتل کیوں کیا، کیا تنخواہ نہیں دی گئی، یا طے شدہ معاملات پورے نہیں کئے گئے یا کوئی اور ظلم کیا گیا؟‘‘خلیفتہ المسلمین کے ان سوالوں کے جواب میں قاتل نے کہا کہ ’’میں بھری عدالت میں نہیں بتا سکتا مجھے علیحدہ وقت دیا جائے ‘‘ قاتل کی خواہش پر علیحدہ وقت دیا گیا تو وہ یوں کہنے لگا’’کوئی تنخواہ کا مسئلہ نہیں تھا نہ کوئی اور ظلم ہوا بس ظلم یہ ہے کہ میرا مالک قوم لوط کی بیماری میں مبتلا تھا اس نے گزشتہ شب میرے ساتھ زیادتی کی میں پھر سویا نہیں اور جب وہ سویا تو اس کی تلوار سے اسی کا سر قلم کر دیا‘‘ قاتل کی بات مکمل ہوئی تو خلیفہ اول کے لئے مشکل مرحلہ تھا کہ مقدمے کا گواہ کوئی نہیں قاتل، قتل کا اقرار بھی کر رہا ہے ا ب اس معاملے کو کیسے سلجھایا جائے کہ یہ پتہ چل سکے کہ قاتل جو کہتا ہے وہی سچ ہے اگر وہ سچ ہے تو پھر اسے رہائی دے دی جائے مگر سچ تک کیسے پہنچا جائے ؟ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے علم کے دروازے کو یاد کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت علی ؓ کو بلائو ایسے پیچیدہ معاملات کا حل ان کے پاس ہوتا ہے۔ حضرت علی ؓ تشریف لائے ان کے سامنے پورا معاملہ رکھا گیا تو آپ ؓ نے تین روز کی مہلت مانگی اس پرحضرت ابوبکر صدیق ؓ نے پوچھا کہ ’’آخر تین روز کیوں، ابھی کیوں نہیں ؟حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ’’اے صدیقؓ! معاملے کی سچائی تک پہنچنے کے لئے تین روز ہی درکار ہیں۔ یہ میں آپ کو بعد میں بتائوں گا کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ فی الحال قاتل کو گرفتار رکھا جائے اور مجھے قبر کی نشاندہی کروا دی جائے۔‘‘ خلیفہؓ نے اتفاق کیا اور پھر قتل ہونے والے کی قبر کی نشاندہی کروادی گئی۔ قاتل تین روز حراست میں رہا۔ تین روز کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ چند افراد کو لے کر قبرستان گئے۔ اس تازہ قبر کو کھلوایا جس کی نشاندہی ہوچکی تھی۔ جب قبر کھودی گئی تو اس میں لاش نہیں تھی۔ لوگوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بتایا کہ اس قبر میں لاش نہیں ہے۔ جواباً حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ قبر پر مٹی ڈال دی جائے۔ مٹی ڈال کر سب لوگ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس ان کی عدالت میں آگئے۔ اس مرحلے پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ گویا ہوئے ’’یہ قاتل سچا ہے۔ اسے رہا کر دیاجائے۔ آج اسے تین دن حراست کے بعد رہائی ملے گی کیونکہ تین دن اس کی بتائی گئی باتوں کی سچائی تک پہنچنے میں لگ گئے۔
اے خلیفہ ٔ وقت! میں نے تین دن کی مہلت کیوں لی تھی؟ میں نے مقتول کی قبر کی نشاندہی کیوں کروائی تھی اور پھرتین دن بعدقبر کشائی کیوںکروائی تھی؟ یہ سب کچھ سچائی کےلئے کیا گیا۔ آج جب یہ ثابت ہو گیا تو میں آپ کے روبرو ہوں۔ یہاں میں ایک حقیقت بیان کروں گا جس سے سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو برباد کیا، عذاب میںمبتلا کیا، ان پرپتھر برسائے گئے اور انہیں ہلاک کردیاگیا۔اس کے بعد دنیا میں جب کبھی کوئی انسان قوم لوط کی بیماری میں مبتلا ہوتاہے، مرنے کے بعد جب اسے دفن کردیاجاتا ہے تو اس کی تدفین کے بعد تین دن کے اندر اندر عذاب کے فرشتے اس کی لاش کو قبر سے نکال کر لے جاتے ہیں اور قوم لوط کے قبرستان میں دفن کردیتے ہیں۔ ایسا ہی اس شخص کے ساتھ ہوا جس کو اس قاتل نے قتل کیا تھا۔ یہ سچ بول رہا ہے‘‘ واقعات بے شمار ہیں مگر لوگ سوچتے نہیں۔ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ آخر قوم لوط کو عذاب میں کیوں مبتلا کیا گیا تھا؟ ان پر سنگ باری کیوں ہوئی تھی؟ آج بھی اگر آپ اردن سے بغداد کا راستہ اختیارکریں تو سنہری ریت پربڑے بڑے کالےپتھر نظر آئیں گے۔ یہ وہی پتھر ہیں جو قوم لوط پر برسائے گئے تھے جنہیں دیکھ کر خوف آتا ہے مگرہمارے لوگ سوچتے کہاں ہیں۔
یہ عارضی سی دنیا ہے لوگ اس میں حکمرانی کی خوشنودیاں حاصل کرنے کی آرزو میں پتا نہیں کیا کیا کرجاتے ہیں۔ امت مسلمہ کے حکمرانوں کو دولت سے پیار ہے۔ یہی پیار فتویٰ فروشوں کو بھی ہے جو حاکم وقت کی ناجائز خواہشات کی تکمیل میں فتوے جاری کرتے ہیں۔ عارضی سی دنیا میں دولت کی کیا حیثیت ہے؟ اس کی وضاحت کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے تھوڑی سی خاک ہتھیلی پر رکھی پھر اسے پھونک مار کر اڑا دیا اور پھر فرمانے لگے ’’دولت کی یہی حیثیت ہے۔‘‘
ہمارےہاںلوگ سوچتے نہیں۔ بہت پرانی باتیں نہیں ہیں۔ ابھی انہیں دیکھنے والے زندہ ہیں۔ کیا لوگوں نے شاہ ایران کا حال نہیں دیکھا؟ کیا حسنی مبارک کو رسوائی نہیں ملی؟کیا قذافی اور اس کے بیٹے کودولت نے رول کر نہیں رکھ دیا؟ کیا صدام کی دولت اسے بچا پائی؟ مارکوس کادولت نے جلوس نکالا۔ ان تازہ مثالوں کے بعدبھی لوگ سوچتے نہیں۔ حکمرانوں کے پیٹ سیم و زر سے نہیں بھرتے۔ علمائے دین کے لئے بھی مقام فکر ہے کہ انہیں دین اور دولت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ دولت میں رسوائی اور پسپائی ہے جبکہ دین میں عظمت اور سربلندی ہے۔ کوئی سوچے تو سہی مگر لوگ سوچتے نہیں۔ ایس پی کے عہدے سے ریٹائرڈ ہونے والی پولیس آفیسر نیلما ناہید درانی شعری زبان میںکہتی ہیں کہ؎
ہر جگہ، ہر راستے پر میرے کتنے سانپ ہیں
جس طرف بھی دیکھتی ہوں آگے کتنے سانپ ہیں
زہر نے میری رگوں کو کردیا ہے نیل گوں
میرے دل میں اور خون میں پھیلے کتنے سانپ ہیں

تازہ ترین