• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رویوں میں تبدیلی لائیں خصوصی مراسلہ… سید ثقلین علی نقوی

انسان زندگی میں ہر روز نئی بات اور نئے کام سیکھتا ہے کبھی کسی سے متاثر ہوتاہے اور کبھی کسی کو متاثر کرتا ہے لیکن ایک تیسری صورت بھی ہوتی ہے اس کے معاملات کی کہ جب وہ ان دونوں صورتوں میں سے کسی ایک کو بھی ٹھیک سے نبھا نہیں سکتا تو پھر وہ دوسروں پر کیچڑ اچھال کر اپنے ظرف کی بلندی کا اظہار کرتاہے۔ہمارے معاشرے میں لوگوں کی پگڑی اچھالنا ایک عام سی بات ہے۔ یہاں سیاسی مخالفت کی وجہ سے جو بدتمیزی، گالم گلوچ، بدزبانی، الزام تراشی ، بہتان بازی اور ایک عزت دار کی عزت اچھالنا ایک معمول بن گیا ہے۔ بعض ایسی خواتین جو سیاست میں حصہ لے رہی ہیں انہیںایسے القابات سے نوازا جاتا ہے جسکی مثال دنیا میں کہیں بھی نہیں ملتی۔ علما کی سیاست کی آڑ میں تضحیک کی جاتی ہے اچھے خاصے عزت دار انسان کو بے عزت کیا جاتا ہے جبکہ بدنام کو عزت دار بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے بعض سیاست داں بڑے بے رحم، بڑے بے لحاظ اور منہ پھٹ ہیں، اپنے مخالفین پر ایسے اوچھے وار کرتے ہیں کہ جن کا تصور بھی نہ ہو،نہ خواتین کا لحاظ ہے، نہ کسی کے مرتبے کا۔جس کا جو دل چاہے وہ کہہ دیتا ہے۔ بعض سیاسی لیڈر بات بعد میں بدتمیزی پہلے کرتے ہیں، وہ کسی دہشت گرد سے کم نہیں لگتے فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ دہشت گرد گولی چلا کر انسانوں کے چیتھڑے اڑاتا ہے اور یہ اپنی زبان سے سینہ چھلنی کرتے ہیں ۔حیرت تو یہ ہے کہ کی کسی دوسری سیاسی پارٹی سے بالکل بھی نہیں بنتی مگر جیسے ہی کسی دوسری پارٹی سے کوئی شامل ہونا چاہتا ہے تو اس چلے ہوئے کارتوس کوگلے لگالیتے ہیں۔ اس مزاج کے سیاستدانوں کو چاہئے کہ عوام کے دلوں پر راج کرنے کا ہنر سیکھیں۔ عام خیال یہ ہے کہ سیاست کرنے والے زبان کے دھنی اور طبیعت کے جری ہوتے ہیں۔ انہیں خیال کرنا چاہئے کہ لوگ دولت و ثروت کو نہیں دیکھتے تھے، دیکھتے ہیں تو صرف لب و لہجہ ، نفاست ، فراست اوراخلاق و کردار کو دیکھتے ہیں ۔ سمجھا جاتا ہے کہ سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والا، ہر حال میں اپنا نقصان ہی کرتا ہے مال و متاع تو جاتا ہی ہے، جان تک بھی دیناپڑتی ہے۔ معرکہ آرائیاں کرنے والوں کو اقتدار و اختیار سے کچھ نہیں ملتا، ان کی قسمت میں جیلیں اور طاقتور طبقوں کی طرف سے ظلم و جبرملتا ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ بدتمیزی و جہالت کو آگاہی اور سیاسی شعور کا نام دیا جاتا ہے۔ بدتمیزی ، مذاق اڑانا کم تر وحقیر جاننا اور الزام تراشی کرتے وقت کسی کا لحاظ نہ کرنا کہاں کی سیاست ہے۔ اس کا احساس کب ہوگا۔ جو سیاستداں بدکلامی اور الزام تراشی کر رہے ہیں وہ معاشرے میں تلخیاں اور دشمنیاںبڑھا رہے ہیں ۔ ان کے ان رویوں کی وجہ سے مستقبل کے حوالے سے رونے کو جی چاہتا ہے۔ موجودہ دور میں بعض سیاستدانوں کو جب ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے اور عجیب و غریب، گھٹیا اور اخلاق سے گرے ہوئے القابات سے نوازتے ہوئے دیکھتے اور سنتے ہیں تو ہمیں ماضی کا وہ دور یاد آجاتا ہے جب قومی رہنما اپنے چال چلن اور اندازبیان میں اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ ان کے بولے ہوئے کسی لفظ اور اٹھائے ہوئے کسی قدم سے سننے اور دیکھنے والوں خصوصاً نوجوان نسل کے اخلاق و کردار پر کسی قسم کے منفی اثر ات نہ مرتب ہوں ۔ عوام اپنے رہنماؤں کے کردار اور رویوں سے سبق حاصل کرتے ہیں جبکہ بچے اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ ہم کو وہ روئیے اختیار کرنا چاہئے جو آنے والی نسلوں کیلئے مثال ہوں۔

تازہ ترین