• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منصف بھی محتاجِ انصاف ہے ...خصوصی تحریر…سید محمد علی گیلانی

ماضی میں صوبائی ہائی کورٹ کے معزز چیف جسٹس اہل ، ایماندار اور محنتی وکلا کی کارکردگی کا خاموشی سے جائزہ لیتے تھے اور اسی خاموشی سے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرتے تھے اور پھر ان سے درخواست کی جاتی تھی کہ عدلیہ اور بنچ کیلئے اگر آپ کی خدمات مل جائیں تو انصاف کی فراہمی میں آسانی ہو جائے گی۔ پیشکش کے جواب میں کچھ لوگ تو معذرت کرلیتے اور کچھ قبول کرلیتے تھے۔ جن لوگوں نے پیشکش قبول کی ان کا نام اور مقام تو پہلے بھی کم نہ تھا مگر انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر نہ صرف انہوں نے اسے قائم رکھا بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا۔ وقت گزرتا رہا ، روایات کمزور ہوتی گئیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں سیاست آگئی۔ پھر ایسے افراد بھی ہائی کورٹ کے جج بنے جنہوں نے حلف اٹھانے سے پہلے ہائی کورٹ کی عمارت میں قدم تک نہ رکھا تھا اور ہائی کورٹ تو ایک طرف کبھی ڈسٹرکٹ جج کے رو برو بھی پیش نہ ہوئے تھے۔ وہ بھی اس مقام پر بٹھا دیئے گئے۔ تاہم پھر ایک اور انقلاب آیا۔ اس قسم کی تعیناتیاں سپریم کورٹ میں چیلنج کی گئیں جہاں ججز کی تعیناتی کیلئے چند شرائط وضع کی گئیں اور معیار رکھا گیا۔ اس معیار پر پورا نہ اترنے والے ججز کو فارغ کردیا گیا اور معیار پر پورا اترنے والے ججز کو برقرار رکھا گیا۔ ان میں سے اکثر عدلیہ کیلئے سرمایہ ثابت ہوئے۔ 2007ء میں وکلا تحریک میں PCO ججز بھی راندۂ درگاہ ٹھہرے اور عدلیہ میں اکھاڑ پچھاڑ ہوئی جس کی پہلے سے کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس لہر میں ایسے ایسے نامور ججز فارغ کردیئے گئے جن کے فیصلے آج بھی عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں اور معتبر سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں طے شدہ اصولوں اور قانون کی تشریح کو قبول کیا جاتا ہے اور وہ فیصلے واقعی اس قابل ہیں۔ اس کے بعد عدالت عالیہ میں بطور جج شمولیت کیلئے معیار تو وہی رہا مگر طریقہ کار میں تبدیلی ہوگئی ، اس طریقہ کار سے معیار بھی متاثر ہوا۔ اب بجائے اس کے کہ جائزے اور مطالعے کی بنا پر کسی کو پیشکش کی جائے اس عہدے کے اکثر امیدوار اور خواہش مند کسی نہ کسی ذریعے سے اپنا نام اس فہرست میں شامل کرالیتے ہیں جن کو تعینات کیا جاتا ہے۔ فہرست میں شامل افراد کو انٹرویو کیلئے بلایا جاتا ہے۔ انٹرویوز میں کامیاب ہونے والے افراد کے کوائف کی تصدیق مختلف ذرائع سے کرائی جاتی اور پھر صوبائی چیف جسٹس ایک فہرست بنا کر معہ جملہ کوائف سپریم کورٹ بھیج دیتے ہیں جہاں جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں پوری طرح چھان پھٹک کرکے ان ناموں کو فائنل کرتے ہیں۔ صدر پاکستان کے نوٹیفکیشن کے بعد ایڈہاک بنیادوں پر ایک سال کی تعیناتی کردی جاتی ہے۔ ججز کی تعیناتی کا یہ طریقہ کار جیسا بھی ہے تاہم ا س کے پیچھے جو جذبہ کارفرما ہے اور جو نیت ہے وہ یہی ہے کہ اس منصب کیلئے اہل افراد کا چنائو کیا جاسکے۔12 اکتوبر 2017ء کو جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کیا گیا۔ سب لوگوں کا خیال تھا کہ کچھ لوگ کنفرم ہو جائیں گے۔ کچھ کو ایک سال کی مزید توسیع مل جائے گی۔ بار کے تمام ممبران کی رائے ججز کی کارکردگی کی بنیاد پر تھی مگر 12اکتوبر کی شام کم از کم ہم بہت سارے وکلا کیلئے شام غم بن کر آئی۔ غالباً پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ یک دم سات ججز کو فارغ کردیا گیا اور سات ججز کو ایک سال کی توسیع دی گئی۔ کنفرم ہونے کی اہلیت پر ایک بھی پورا نہ اترا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلہ پر اعتراض کی گنجائش ہے نہ ایسی جرأت کرسکتا ہوں اور نہ ہی ایسا کہنے کا مجھے کوئی اختیار ہے مگر ذہن میں چند باتیں اور سوالات آتے ہیں۔ انتہائی ادب کے ساتھ جن کا اظہار کرنا میں اپنا حق سمجھتا ہوں۔ 1۔ جب Elevation کا عمل شروع کیا جاتا ہے تو وسائل اور ذرائع کے پیش نظر امیدوار کے تمام کوائف کمیشن کے روبرو ہوتے ہیں۔ اس کی اچھائی ، برائی ، پیشہ وارانہ کارکردگی ۔ ہر بات کو مدنظر رکھ کر اس کا نام فائنل کیا جاتا ہے۔ جب ایک سال بعد ان کا دوبارہ جائزہ لیا جاتا ہے تو کیا وہ کوائف بدل جاتے ہیں؟ یا کیا وہ کوائف غلط ثابت ہوتے ہیں؟ 2۔ کیا ان کوائف کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے؟ 3۔ اگر ان کی کارکردگی کا دارومدار ان کے تحریر کردہ فیصلوں پر ہے تو کیا اس امر کا جائزہ پہلی تعیناتی کے وقت نہیں لیا جاسکتا؟ اس مقصد کیلئے جن لوگوں کو وکلا سے لیا جارہا ہے ان کی ڈرافٹ کردہ رٹ ، پٹیشن ، اپیل کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا؟ اور سروس سے لئے گئے لوگوں کے بطور ڈسٹرکٹ اور سیشن جج فیصلوں کو پیش نظر نہیں رکھا جاسکتا؟ 4۔ اگر کوئی بدعنوانی یا کسی اور بے قاعدگی کا الزام ہے تو اس بنیاد پر تو کنفرم ججوں کے خلاف بھی کارروائی کا طریقہ کار موجود ہے ، جو جوڈیشل ریفرنس ہے۔ اس کی موجودگی میں کیا سرسری جائزہ مناسب ہے؟ 5۔ یہ لوگ اس لئے فارغ کئے جارہے ہیں کہ یہ ہائی کورٹ کے جج بننے کے اہل نہیں تھے ان کی کارکردگی درست نہیں تھی۔ ان کے فیصلے درست نہیں تھے تو پھر انہوں نے ایک سال میں جو فیصلے کئے ان کو درستگی کی سند کیسے دی جاسکتی ہے؟ کیا ان سب فیصلوں پر نظرثانی نہیں ہونی چاہئے؟ 6۔ کنفرم ہونے سے پہلے ان کے فیصلوں کو لاء جرنلز میں رپورٹ کرنے کی اجازت کیوں دی جاتی ہے؟ 7۔ ان کو فارغ کرنے سے پہلے قانون کے ایک سنہری اصول کسی کو سماعت کئے بغیر اس کے خلاف فیصلہ نہیں کیا جاسکتاکو کیوں فراموش کیا جاتا ہے۔ ان کو کم از کم بتایا تو جائے کہ ان کے خلاف کیا الزامات ہیں۔ ان کی کیا کوتاہیاں ہیں اور ان کے پاس ان کا کیا جواز اور جواب ہے۔ ان کو وضاحت کا موقع دیں۔اس پس منظر میں تجویز دوں گا کہ ایڈہاک ازم ختم ہونا چاہئے۔ کنفرمیشن اور توسیع کے مرحلے ختم ہونے چاہئیں اور جو بھی پڑتال کرنی ہے وہ ابتدا میں ہی کرلی جائے تاکہ تعینات ہونے والے ججز دل جمعی اور اطمینان سے کام کرسکیں۔
( صاحب تحریر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور سابق صدر لاہور ہائیکورٹ ،ملتان بنچ ہیں)

تازہ ترین