• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شرمین عبید چنائے کے سوشل میڈیا پرایک میسج آنے کے بعدگزشتہ پورے ہفتے صحیح اور غلط کے فلسفے پر ایک طویل بحث شروع ہوگئی۔ جہا ں شرمین عبید کے پیغام میں لفظوں کے چنائو میں بظاہر جھول دکھائی دیا، جس کی انہوں نے تازہ بیان میں وضاحت بھی کردی ہے، وہیں اعتراض کرنے والوں نے معاملے کو زبردستی غیر ضروری سطح تک لے جانے کی کوشش بھی کی ۔ اس وقت بظاہر صورتحال یہ ہے کہ شہر کراچی کے معروف اور بلا شبہ معتبر ترین اسپتال میںشرمین کی بہن کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے پر متعلقہ ڈاکٹر کے خلاف انتہائی ممکن کارروائی ہوچکی ہے اور یہ یقیناََ ایک حوصلہ افزا بات ہے ۔ معاملہ اب کسی کروٹ بیٹھتا ہے یا نہیں لیکن اس ساری صورتحال کے سبب، اور اس ساری بحث سے قطع نظر ، سوشل میڈیا کے روز مرہ کے استعمال کے حوالے سے چند اہم سوال ضرور سامنے آئے ہیں۔
تفصیل میں جانے سے قبل دواہم باتوں کی نشاندہی ضروری ہے ۔ شرمین عبید چنائے بلا کسی اختلاف رائے پاکستان کی قابل قدر شخصیت ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنی دستاویزی فلموں میں بہادری سے خواتین کے ساتھ روا معاشرتی ناانصافیوں پر موثر آواز اٹھائی بلکہ فلم سازی کے شعبوں میں ایک سے زیادہ باردنیا کا سب سے معتبر ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اِن پر کچھ تنقیدبھی ہوئی ، مخالفین نے بھی بہت کچھ سوچا اور کہا ہوگالیکن ان کی کامیابیاں اپنی جگہ اٹل ہیں ۔یہ طے ہے کہ اگر کوئی فورم شرمین عبید کی تازہ وضاحت سے پہلے کے ان کے بیان کو غلط بھی قرار دے دیتا تو گزشتہ خدمات اور ایوارڈز سے جڑے ان کے امیج پر کوئی آنچ نہیں آسکتی تھی۔
دوسری وضاحت یہ کہ اس تحریر کے کسی لفظ میں ایسے کسی شخص یا کسی ڈاکٹر کے لئے کوئی ہمدردی نہیں ہوسکتی جو اپنے کسی پیشنٹ کو علا ج کے بعد سوشل میڈیا پر اس کی تصویروں پر ’لائک ‘ کرے ، اِن پر تبصرے کرے اور کوئی مثبت رسپانس ملے بغیر مریض کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دے ۔
فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے کایہ معاملہ ملک میں کسی تنازعے کا سبب بننے والا پہلا مشہور واقعہ ہے۔لہٰذا اگر اگلے چند روز میں یہ معاملہ کسی نہ کسی سطح پر حل بھی کرلیا جائے تب بھی مستقبل میںمزید تنازعات اور الجھائو سے بچنے کے لئے اس پر اعلیٰ سطحی بحث ضروری ہے۔ فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے سمیت سوشل میڈیا پر عمومی رویّوں کے پیچھے نیت اور ارادوں کا سوال اگرچہ بعدمیں اٹھتا ہے لیکن اس کی ممکنہ تشریحات پربحث کے لئے اس مدعہ کو ایک جانب پارلیمنٹ یا کسی بڑے قانونی فورم میں زیر بحث لانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہوگی۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ معاشرے کی قدروں اور تقاضوں کے تحت پاکستان میں سائبر کرائم کا شعبہ ہی اس سلسلے میں تفصیلی کوڈ آف کنڈٹ وضع کرکے منظوری کے لئے پیش کرے ۔ ورنہ شاید اس قسم کے واقعات آئے دن دردسر بنے رہیں گے۔
میں ذاتی طور پر کم و بیش دس سا ل سے فیس بک استعمال کررہا ہوں۔یہ حقیقت ریکارڈ پر موجود ہے کہ آشنا اور غیر آشنا افرادسمیت ایسے لوگوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جن کی بھیجی ہوئی فرینڈریکوئسٹ پر میں نے آج تک کوئی رسپانس نہیں دیا۔ خود بھی شاذونادر ریکوئسٹ بھیجتا ہوں شاید اسی لئے ایک عشرہ گزر جانے کے باوجود فرینڈز لسٹ میں ناموں کی تعداد سات سو سے بہت کم ہے ۔ لیکن ان برسوں میں جن تھوڑے بہت لوگوں کو میں نے ریکوئسٹ بھیجیں ان میں چند خواتین بھی شامل ہیں۔ ان میں حقوق نسواں پر کام کرنے والی بہادر خواتین، جنسی طورپر ہراساں کرنے کے واقعات پر تحقیق کرنے والی بے باک خواتین اور صف اوّل کی فیمنسٹ بھی شامل ہیں ۔ لیکن اِن سطروں کے لکھنے تک کسی نے میری ریکوئسٹ پر ہراساں کرنے کا الزام نہیں لگایابلکہ آج وہ سب فیس بک پر میری فرینڈز لسٹ کا حصہ ہیں۔ اس لئے یہاں کسی حد تک میرا تجربہ ڈاکٹر پر لگے الزام کو قانونی اور اخلاقی تقویت فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
شرمین عبید چنائے کی تازہ وضاحت سے قبل یقیناََ دنیا شش وپنج میں مبتلا تھی کہ اگرچہ کسی کو فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنا غیر اخلاقی اور نامناسب رویہ توہو سکتا ہے لیکن یہ بلا شبہ ایسا جرم نہیں کہ جس کی کسی کو اتنی بڑی سزا بھگتنا پڑجائے ۔ فرینڈ ریکوئسٹ بھیجتے وقت فیس بک کی انتظامیہ کی جانب سے ایک نوٹس آتا دیکھا ہے کہ آپ ریکوئسٹ ان ہی لوگوں کو بھیجیں جنہیں آپ جانتے ہوں۔ لیکن اس میں ایسا کچھ درج نہیں ہوتا کہ اپنی مرضی سے یک طرفہ فیصلہ کرکے کسی مرد یا عورت کو ریکوئسٹ بھیجنا جرم یا نا مناسب عمل ہے۔لیکن شرمین عبید کی تازہ وضاحت کے بعد یہ بات بھی سامنے آگئی کہ علاج کے بعد مذکورہ ڈاکٹر کی جانب سے معاملہ صرف ریکوئسٹ بھیجنے تک محدود نہیں تھا۔
البتہ کچھ حقائق ایسے بھی ہیں جن پر غور ضروری ہے ۔ کسی کی ریکوئسٹ دیکھ کر اگر آپ اسے فیس بک فرینڈ نہ بنانا چاہیں تو آپ کے پاس اس ریکوئسٹ سے نمٹنے کے لئے تین سے چار واضح آپشنز ہوتے ہیں۔ پہلا آپشن ریکوئسٹ کو نظر اانداز کرنا ہے، یہ بظاہر بہترین آپشن ہے ۔ دوسرا ریکوئسٹ کو ڈیلیٹ کرنا ہے اور تیسرا ریکوئسٹ ڈیلیٹ کرکے ریکوئسٹ بھیجنے والے کو بلاک کردینا ہے۔ چوتھا آپشن یہ ہے کہ آپ فیس بک انتظامیہ کوریکوئسٹ بھیجنے والے سے متعلق شکایت کرسکتے ہیں۔بظاہر مذکورہ معاملے میں ان تمام آپشنز کو نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ اگر چہ اس کی وجوہات غیر اہم ہوسکتی ہیںلیکن ان چاروں دستیاب آپشنز کو چھوڑ کر سوشل میڈیا کے ذریعے اس معاملے کی تشہیرایک اہم اور غیر معمولی بات ضرور ہے۔
اس بات کا یقیناًہر وقت امکان موجود ہوتا ہے کہ کسی بھی جانب سے آنے والی فرینڈ ریکوئسٹ کے پیچھے ارادے یا نیت میں کوئی خلل واقع ہو۔اور یہ بھی ہوسکتا ہے واقعہ کی تشہیر کے باعث اصل عزائم سامنے نہ آسکے ہوں ۔کم از کم فیس بک ایک ایسا فورم ہے کہ جس کے ذریعے ، فرد اور معاشرے کی خاطر، تھوڑا سا صبر کرکے خود کو محفوظ رکھتے ہوئے ریکوئسٹ بھیجنے والے کی بری نیت اور ارادوں کو جان کر رنگے ہاتھوں پکڑایا جاسکتا ہے۔ اگر اِس معاملے میں ایسا ہی کچھ ہوا ہے یاہونے جا رہا ہے تو پھر یہ ایک نئی اور مثبت پیش رفت ثابت ہوگی ۔
ان معاملات میں غیر ضروری تشہیر سے بچنے والے شہریوں کیلئے یہاں یہ دہرانابہتر ہو سکتا ہے کہ فیس بک پر بھیجی ہوئی ریکوئسٹ سے نمٹنے کے لئے دستیاب چار آپشنز کو بھر پور طریقوں سے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ دیگر سماجی ویب سائٹس پر بھی یہ آپشنز کسی نہ کسی انداز میں دستیاب ہیں۔ اسکے علاوہ متعلقہ حکام سے ایسے غیر مناسب روئیے کے مرتکب کسی بھی شخص سے متعلق شکایات درج کرنے کا روایتی حق ہر شہری کے پاس پہلے سے موجود ہے۔ شہر کا سب سے اعلیٰ اور معتبر اسپتال مناسب ترین چارہ جوئی کرنے کے باوجود اگرآج تک معاملے کی ’رازداری ـ ‘ کو اوّلین اہمیت دے رہا ہے تو یقیناً یہ اس ادارے کے طویل اور کامیاب پیشہ ورانہ تجربات کا نتیجہ ہے۔

تازہ ترین