• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کا دادا بھی قومی سطح کا سیاستدان اور نامور لیڈر تھا۔ باپ بھی اتنا بڑا سیاستدان کہ ملک کا طویل عرصے تک وزیر اعظم رہا اور تحریک آزادی کے ہراوّل دستے میں نمایاں رہا۔ وہ جب تک زندہ رہا، اپنی مقبولیت، قائدانہ صلاحیتوں اور ایثار و قربانی کی بنا پر انتخابات میں کامیابی کے جھنڈے لہراتا رہا اور وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان رہالیکن زندگی انسانی آرزئوں کی مانند طویل نہیں ہوتی۔ اسے ایک دن ختم ہونا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی دنیاوی عہدے اور شان و شوکت بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ جس شخص نے قوم کی خلوص سے بےلوث خدمت کی ہو اور قوم کے لئے قربانیاں دی ہوں وہ موت کے بعد بھی نہ صرف تاریخ میں زندہ رہتا ہے بلکہ عوام کے دلوں میں بھی’’زندہ باد‘‘ رہتا ہے، چنانچہ سیاست اور سیاست کے رموز اس کی گھٹی میں موجود تھے اور عملی سیاست کے دائو پیچ اس کے خون میں حرکت کرتے تھے۔وہ سیاست کی گود میں جوان ہوئی تھی اور لیڈری اسے وراثت میں ملی تھی اس لئے اسے سیاسی بلوغت کی منزلیں طے کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی، چنانچہ اندرا گاندھی جوانی ہی میں ایک بڑی جمہوریت کی وزیر اعظم منتخب ہوگئی۔ ہم اندرا گاندھی سے اس لئے نفرت کرتے ہیں کہ اس نے ہمارے ملک کو دولخت کردیا اور فتح کے نشے میں اعلان کیا کہ میں نے بزرگوں کی غلطی کا بدلہ لے لیا ہے اور نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے، گویا وہ یہ کہنا چاہتی تھی کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے جس نظریہ پاکستان کی قوت سے گاندھی، نہرو اور کانگرس کو شکست دی تھی آج میں نے وہ نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ یہ بیان ایک مغرور سیاستدان کا بیان تھا ورنہ اندرا گاندھی اچھی طرح جانتی تھی کہ نظریے کبھی نہیں مرا کرتے اور پھر جب تک پاکستان دنیا کے نقشے پر موجود ہے، نظریہ پاکستان زندہ و تابندہ رہے گا۔مطلب یہ کہ اندرا نے سیاست کی گود میں آنکھ کھولی تھی اس لئے وہ سیاست کے رموز، تقاضے، رویے اور عروج و زوال خوب سمجھتی تھی۔ اس کے برعکس وہ سیاستدان جو غیر سیاسی گھرانوں میں جنم لیتے ہیں اور سیاسی پارٹیوں میں بحیثیت کارکن مار کھائے بغیر لیڈر بن جاتے ہیں یا جنہیں گھر بیٹھے اقتدار کا تاج پہنادیا جاتا ہے ان میں مدبر سیاستدان کی خوبیاںخال خال ہی پیدا ہوتی ہیں۔
جب سنگھ نے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا تو وہ اندرا گاندھی سے ملنے گیا اور اپنے ارادے کا اظہار کیا۔ اندرا گاندھی چونکی اور کہا کہ تم لاڈلے قسم کے نوجوان ہو اور لاڈلے نوجوان نہ ہی صرف نہایت حساس ہوتے ہیں بلکہ وہ ہر چیز آسانی سے حاصل کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ انہیں کانٹا بھی چبھے تو آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں۔ لاڈ پیار انسان کو خوشامد پسند بنادیتا ہے اور انسانی نفسیات کچھ اس طرح کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے کہ وہ ساری دنیا کو اپنے تابع سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ مسٹر سنگھ سیاست میں کامیابی کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ انسان موٹی چمڑی(Thick Skin)رکھتا ہو، تنقید کو خوش دلی سے برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو، مخالف ہوا کے خلاف چلنے کی صلاحیت رکھتا ہو، عدالتوں کی خاک چھاننے، جیلوں کی سختیاں برداشت کرنے اور پولیس کی زیادتیوں کو چپ چاپ سہنے کی ہمت رکھتا ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ گھریلو زندگی اور مالی وسائل کے ایثار کا ظرف رکھتا ہو۔ مسٹر سنگھ تم اچھی طرح سوچ لو کہ کیا تم میں پہاڑ جیسا صبر اور استقامت ہے۔ سیاستدان کا سب سے بڑا اثاثہ صبر و برداشت اور مستقل مزاجی ہوتے ہیں۔ بڑی سے بڑی چوٹ کھا کے بھی انتقامی خواہش کو دبائے رکھنا سچی اور مدبر لیڈر شپ کا خاصا ہوتا ہے۔ مسٹر سنگھ سرجھکائے اندرا گاندھی کا لیکچر سنتا رہا اور پھر یہ کہہ کر چلا گیا کہ میں آپ کی گفتگو کی روشنی میں مزید غور کروں گا۔
اندرا گاندھی کی مسٹر سنگھ سے گفتگو کا احوال سنانے کے بعد اس نے اپنے سامنے صوفے پہ بیٹھے ہوئے دوستوں کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہے یا نہیں۔ یہ چند دوستوںکی ڈنر بیٹھک تھی جس میں میں بھی مدعو تھا۔ ان میں دو حضرات وکیل تھے، دو سابق بیوروکریٹ اور ایک کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا اعلیٰ افسر۔ اتفاق ہے کہ ہم سب اولڈ راوین یعنی گورنمنٹ کالج لاہور کے سابق طلبہ تھے۔ کچھ حضرت میاں برادران کے کالج میں ہم عصر تھے اور ان سے دوستانہ مراسم کا حسن ظن بھی رکھتے تھے۔ موضوع گفتگو تھا میاں صاحب کا سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ردعمل، عدلیہ پر حملے اور جج صاحبان پر بغض کا الزام۔ جن صاحب نے اندرا گاندھی کی گفتگو کو افسانوی انداز میں سنایا وہ کالج کے دور میں اچھے مقرر (Debator)سمجھے جاتے تھے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں میرے شاگرد رہے تھے۔ ان کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ میاں صاحب’’لاڈلے پتر‘‘ ہیں،انہوں نے سیاست کی سختیاں برداشت کی ہیں نہ مخالفانہ عدالتی فیصلوں کے عادی ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ مرحوم کا جو حشر ہوا وہ ابھی کل کی بات ہے۔ کسی محنت، سیاسی تربیت اور جدوجہد کے بغیر اقتدار کا تاج ان کے سر پر’’پہنا‘‘ دیا گیا جس کے تقاضے انہوں نے خوب نبھائے لیکن سیاست کی بھٹی میں جلے بغیر سیاستدان میں صبر و برداشت پیدا ہوتا ہے نہ استقامت۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کہا کرتے تھے کہ جیلوں، پولیس کی لاٹھیوں اور عدالتوں نے مجھے صبر و برداشت اور استقامت سکھائی۔ وکیل دوست کا کہنا تھا کہ میاں صاحب نے بغض کا طعنہ جسٹس کھوسہ کو دیا حالانکہ جسٹس کھوسہ اور چیف جسٹس ثاقب نثار میاں صاحب کے دور حکومت میں جج بنے۔ دونوں خاندانوں سے میاں صاحب کے دوستانہ تعلقات تھے۔ جسٹس کھوسہ میاں نواز شریف کے محسن عظیم جسٹس نسیم حسن شاہ کے داماد ہیں جنہوں نے میاں صاحب کو بطور وزیر اعظم بحال کرکے روایت سے انحراف کیا تھا۔ جسٹس کھوسہ کے بھائی طارق کھوسہ میاں شہباز کے پسندیدہ ا سٹاف افسر اور دوسرے بھائی ناصر کھوسہ میاں شہباز کے پسندیدہ چیف سیکرٹری تھے جسے میاں نواز شریف کے وزیر اعظم بننے پر میاں شہباز نے بطور تحفہ وزیر اعظم کو پیش کیا تھا۔ ناصر کھوسہ میاں نواز شریف کے فیورٹ پرنسپل سیکرٹری تھے، انہیں ریٹائرمنٹ پر بطور انعام ورلڈ بنک میں پاکستان کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر لگایا گیا تھا۔ اتنی قربت بغض نہیں بلکہ محبت پیدا کرتی ہے لیکن انصاف کے تقاضے نبھانے کے لئے ذاتی پسند سے ماوراء ہونا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے اب مسلم لیگی قیادت عدلیہ اور فوج پر پہلے سے زیادہ یلغار کرے گی۔ تندی باد مخالف، حالات کا شکنجہ، قید و بند کی صعوبتیں اور معاندانہ فضا ہی لیڈر شپ کے کردار اور قائدانہ صلاحیتوں کا امتحان ہوتی ہے اور اس آزمائش میں سرخروئی کے لئے دو ہتھیاروں سے کام لینا پڑتا ہے۔ اوّل صبر و برداشت دوم استقامت۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ کیا مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں یہ دونوں وصف موجود ہیں؟ یا وہ عام سیاسی قائدین کی مانند انتقام سے ’’آگ بگولا‘‘ ہو کر اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجادینا چاہتے ہیںیعنی انہیں ذات پیاری ہے یا قومی ادارے؟

تازہ ترین