• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غائبانہ الزامات کی غائبانہ نماز جنازہ
غائبانہ نماز جنازہ میں میت نہیں ہوتی، غائبانہ الزام کا ثبوت نہیں ہوتا، اس لئے عظیم تر مفاد میں غائبانہ الزامات کی نماز جنازہ پڑھ لینی چاہئے، یہی ایک طریقہ ہے برسر الزام سیاست میں الزام دھرنے کا انجام، ہر جھوٹ کسی سچ کی غیر مصدقہ فوٹو اسٹیٹ کاپی ہوتا ہے، ضرور ہمارے ماضی میں کٹھ پتلی تماشا ہوتا ہو گا اور پتلیاں نچانے والا بھی کوئی ہو گا مگر اب عرصہ ہوا یہ تماشا ختم تماشائی باقی اور تماشا گر کا سرے سے کوئی وجود نہیں، مگر ہمارے سیاستدان اب تک ایک فرضی پتلی تماشا سے استفادہ جاری رکھے ہوئے ہیں، یہ جو ٹوئیٹس ہوتے ہیں یہ اکثر کٹھ پتلیوں کا، انہیں نچانے والے کا ذکر کرتے ہیں، کوئی بھی نہیں پوچھتا کہ جو نچا رہا ہے اس کا کوئی نام پتا بتائو مگر کیسے بتائیں کہ خواجے کا بھی ڈڈو گواہ ہوتا ہے ان جھوٹے الزامات کے موجدوں کا کوئی گواہ ہی نہیں ہوتا، ہماری نظر سے مریم صفدر کا ایک ٹوئیٹ گزرا عمران خان خود کسی کی کٹھ پتلی ہیں مگر انہوں نے بھی ’’کسی‘‘ کا نام نہیں لیا، یہ ادھوری بات ہی الزام ہوتا ہے جس کا ثبوت نہیں ہوتا، اگر ہوتا ہے تو پھر الزام لگانے والا بزدل ہوتا ہے کہ نام لینے سے ڈرتا ہے، عمران خان نے کہا ہے کٹھ پتلی وزیراعظم، شریف فیملی کے فرنٹ مین ہیں، انہوں نے کم از کم نام پتا بتا دیا ہے مگر یہ الزام بھی محتاج ثبوت ہے، الزام تراشی، جیب تراشی ہم وزن ہونے کے ساتھ ہم معنیٰ بھی ہیں، چونکہ سیاستجبھی منفعت بخش کاروبار بن چکی ہے اس لئے عوام کی جیبیں چیک کریں سب کٹ چکی ہیں، اب لٹے ہوئے غریب عوام ہیں کہ وہ الزام بھی نہیں دے سکتے کیونکہ تھانے ’’انہی‘‘ کے، دانے انہی کے اور کملے سیانے انہی کے، بندہ مفلس یہی الاپتا جائے کہ؎
سارے دن تیرے میری تو بس یہی اک شام
سیاستدان وہی ہوتا ہے جس کے دانے پورے ہوں، تھوڑی دیر کے لئے اگر سیاستدانوں حکمرانوں سے ان کی دولت الگ کر دی جائے تو ان کے پاس اوپر والے خالی چیمبر اور واسکٹ کے سوا کیا رہ جائے گا۔
٭٭٭٭
بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ
مسلم لیگ ن کے ایبٹ آباد جلسے میں خطاب کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی نے کہا:آئین کی طرف بڑھنے والا ہر ہاتھ توڑ دیں گے، اگر آئین کی طرف بڑھنے والے ہر ہاتھ کو توڑا گیا ہوتا تو پارلیمنٹ کب کی ٹنڈی ہو چکی ہوتی، 73ء کے آئین کے ساتھ حسب ضرورت و حسب مطلب جو کچھ ہوتا رہا اس کے نتیجے میں آئین کو دیکھ کر اپنا چہرہ آئینے میں دیکھ لینا چاہئے، محمود خان اچکزئی کی اپنی پارٹی اپنی چادر موجود ہے اس کے باوجود انہوں نے ایبٹ آباد میں ہاتھ توڑ تقریر کر ڈالی، کیا ان کی پارٹی نے الحاق کر لیا ہے، ویسے مولانا ان سے زیادہ زیرک نکلے انہوں نے اپنے رومال سمیت اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم کے بجائے ن لیگ کے پلیٹ فارم پر پائوں نہیں رکھا، وہ بہت دور تک دیکھ لیتے ہیں اس لئے میاں صاحب سے غیر محسوس انداز میں دور ہوتے جا رہے ہیں، ہماری سیاست کے سارے اعضاء سلامت ہیں بس ناک موجود نہیں، دنیا بھر سے خبریں آ رہی ہیں کہ بہت سے لوگوں نے خفیف سے الزام پر اپنا منصب چھوڑنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی، مگر ہمارے حکمران اور چھوٹے موٹے تمام وزراء اپنے منصب سے ایلفی لگا کر چپکے ہوئے ہیں، اور کہتے ہیں فارغ کیا جائے گا تو فارغ ہوں گے ورنہ مصروف رہیں گے، یہ ہے وہ وفا داری جو عوام کی عدالت سے رجوع کرنے والوں کو اپنے عہدے سے ہے، جب خالد بن ولیدؓ کو حضرت عمرؓ نے معزول کیا اور ابو عبیدہ ابن الجراحؓ کو ان کی جگہ کمانڈر مقرر کیا تو کیا انہوں نے مدینہ منورہ کے عوام سے پوچھ کر ایسا کیا تھا؟ بہرحال ہم نواز شریف کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ اچکزئی مشکل کی گھڑی میں ایک بار پھر ان سے نتھی ہیں، ایسے ’’ایڈ ہیسوو‘‘ مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔
٭٭٭٭
عوام کی عدالت
زہے نصیب کہ جب بھی خواص مشکلات سیاست میں پھنس جاتے ہیں، تو وہ اپنے سارے مقدمات عوام کی عدالت میں لے جاتے ہیں، اور وہ ووٹ ان کی جھولی میں ڈال کر ان کے حق میں فیصلہ دے دیتے ہیں، ظاہر ہے عدالتیں تو یہ کام نہیں کر سکتیں کہ نہ دیکھیں نہ جانچیں اور فیصلہ دے دیں، نتیجہ یہ ہے کہ حکمران عوام کے اور عوام حکمرانوں کے کٹہرے میں اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا پاتے ہیں، کیا کبھی کسی کے گھر چوری ہو جائے تو وہ عوام کی عدالت میں جائے؟ کیا یہ جو ڈھیر ساری عدالتیں قائم کی گئی ہیں ان کو بند کر دیا جائے۔ حضرت علیؓ کی زرہ ایک یہودی سے برآمد ہونے کے واقعہ سے کون ناواقف ہے؟ امیر المومنینؓ معاملہ قاضی شریح کے پاس لے گئے یا عوام کی عدالت میں؟ اگر کوئی عوامی عدالت ہو سکتی ہے تو وہ عدالت عظمیٰ سے لے کر نیچے تک کی تمام سول عدالتیں ہی ہو سکتی ہیں اس لئے کہ عوام کے ٹیکسوں سے چلتی ہیں، کوئی حکمران اپنی جیب سے انہیں تنخواہیں نہیں دیتا، اگر ایک ظالم شوہر کے ظلم کے خلاف کوئی بیوی فریاد کرنا چاہے تو وہ مینار پاکستان پر عوامی جلسے میں اپنی شکایت درج کرائے گی یا عدالت جائے گی، یہ جو عوام کو حکمرانوں سیاستدانوں نے اپنے لئے امرت دھارا بنا لیا ہے، اس لحاظ سے تو عوام چاہیں تو اپنی عدالت میں آنے والے حکمرانوں کو پھینٹی لگا سکتے ہیں، کیونکہ عدالت بری بھی کر سکتی ہے سزا بھی دے سکتی ہے، عدالت ایک قانونی اصطلاح ہے، جس کا اطلاق صرف اس عدالت پر ہو سکتا ہے جس میں منصف بیٹھ کر انصاف کریں اور حکومت عوام سے ٹیکس اکٹھے کر کے ان کے مشاہرے کا بندوبست کرے، اس لئے تمام عدالتیں عوام کی ہوتی ہیں مگر عوامی نہیں ہوتیں کیا پوری دنیا میں کبھی کسی حکمران کا مقدمہ کسی عوامی عدالت میں چلا ہے؟
٭٭٭٭
مینڈیٹ کا حق مارنے والے
....Oحسن نثار:مینڈیٹ کے نعرے لگا کر جرم سے نہیں بھاگا جا سکتا۔
شاید آپ جانتے ہوں گے کہ وہ اتھلیٹ رہے ہیں اور کرکٹر بھی، جبکہ ان کے حریف فقط کرکٹر۔
....Oسراج الحق:کراچی کے عوام سے بار بار مینڈیٹ لینے والوں نے کچھ نہیں کیا۔
مینڈیٹ لیا ہی اس لئے جاتا ہے کہ بعد میں کچھ نہ کیا جائے،
....Oصدر ممنون حسین:ہم اپنے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے پُر عزم ہیں،
جتنے بھی کرتا دھرتا پُر ہو جاتے ہیں پُر عزم رہتے ہیں، صرف لاہور شہر کی ورکشاپوں کا دورہ کیجئے آپ کو اپنا عزم اور سکول جانے کے قابل بچے افراط سے مل جائیں گے، ہم سب پُر عزم ہیں با عمل نہیں، وجہ یہ ہے کہ ہمارے شکم پُر ہو چکے ہیں،
....Oفضل الرحمان:ہمارے بغیر حکومتیں بنتی ہیں نہ چلتیں۔
آپ کابلی پرزوں کا بلال گنج ہیں۔
....Oبھارتی صدر کی تنخواہ کابینہ کے سیکرٹری کی تنخواہ سے بھی کم۔
بھارت نے اپنے صدر کی انکے کام کے مطابق تنخواہ مقرر کی ہے، مگر ہمارے صدر بہت زیادہ کام کرتے ہیں اسلئے ان کی تنخواہ بھی کافی ہے، بھارت اس سلسلہ میں ہم سے جیت نہیں سکتا!

تازہ ترین