• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہروں میں جھوٹ اور ملاوٹ عروج پر ہے۔ لوگ عادتاً سچ بولنے سے گریز کرتے ہیں اور جھوٹ اس طرح بولتے ہیں جیسے جھوٹ بولنا ثواب کا کام ہو۔ مجھے یہ سارا کام اس وقت بدقسمتی لگنے لگا جب میں نے دیہات کو شہروں کے نقش قدم پر چلتے دیکھا۔ جھوٹ سب برائیوں کو جنم دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ قباحت بام عروج پر ہے۔ مغرب میں جھوٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے مغربی ملکوں میں ملاوٹ، جعل سازیاں اور دھوکے بازیاں بہت کم ہیں۔ میں کو ئی مغرب سے بہت متاثر نہیں ہوں نہ ہی مجھے مغربی دنیا سے کوئی بہت زیادہ لگائو ہے۔ مگر یہ باتیں تجربات کی روشنی میں لکھ رہا ہوں مثلاً مغربی ملکوں میں لوگ عادتاً سچ بولتے ہیں۔ انہیں سچ کے ثواب سے غرض نہیں مگر ہمارے ہاں لوگ عادتاً جھوٹ بولتے ہیں۔ یہاں جھوٹ کی سزا سے کوئی خوف نہیں۔
ایک زمانے تک بہت شوق رہا کہ روزانہ پارلیمنٹ ہائوس کا رُخ کیا جائے۔ پھر پارلیمنٹ جانے سے یہ اندازہ ہوا کہ پاکستانی سیاستدانوں کی اکثریت جھوٹ بولتی ہے، لوگوں سے فریب کرتی ہے، سیاستدانوں کوکوئی پرواہ ہی نہیں کہ وہ جس اسمبلی میں بڑے دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں اس کی چھت پر اللہ تعالیٰ کے 99نام لکھے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے ان ناموں میں جبار بھی ہے اور قہار بھی ہے لیکن پاکستانی سیاستدانوں کے طرز ِ عمل سے لگتا ہے کہ انہیں روز ِ محشر کا بھی کوئی خوف نہیں۔ ضیاء الحق دور میں سیاستدانوں کی جو پنیری لگی، اس کی زندگی کا مقصد ہی لوٹ مار کے سوا کچھ نہیں۔ اس پنیری کا گاڈ فادر قوم کے سامنے بھی جھوٹ بولتاہے، اسمبلی ہال میں بھی جھوٹ بولتا ہے اور اسے عدالت کے اندر بھی سچ بولنے کی توفیق نہیں ہوتی ۔ ضیاء الحقی دور میں شروع ہونے والے ’’عہدِ لوٹ مار‘‘ میں کچھ پرانے چراغ تھے، اب وہ بھی نہیں رہے مثلاً نوابزادہ نصراللہ خان انتہائی وضعدار، سچے اور کھرے سیاستدان تھے، تہہ خاک جابسے۔ نظریاتی سیاست کرنے والے جہانگیر بدر، وضعداری کی علامت مخدوم امین فہیم اور اسی قبیلے کے دیگر سیاستدان دنیا سے رخصت ہوگئے یا پھر پارلیمنٹ کا حصہ نہ رہے۔ ان کی جگہ ایسے لوگ آگئے جن کو وضعداری کا مطلب بھی معلوم نہیں۔ جن کا سارا علم لوٹ کھسوٹ پر مشتمل ہے اور اس علم میں انہوں نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔
رفتہ رفتہ ضیاء الحقی پنیری عمدہ لوگوں کو کھا گئی۔ یہ رخصت ہوئی تو ہم جیسوں کا شوق بھی کم پڑنے لگا۔ اب یہ عالم ہے کہ دل مائل ہی نہیں ہوتا کہ پارلیمنٹ ہائوس کا رُخ کیا جائے۔ اتنے کم ظرف لوگوں میں کہاں جایا جائے۔ ایسے لوگ جنہوں نے ملک کو بے دردی سے لوٹا، جو عدلیہ اور دیگر اداروں کی روزانہ توہین کرتے ہیں، قبضہ گروپوں کے لوگ اسمبلی میں ایسے چیختے ہیں جیسے موچی دروازے میں جلسے سے خطاب کر رہے ہوں۔ ان کی کیا حیثیت تھی، سارا شہر اُن سے واقف ہے۔ موچی دروازے سے ذرا پہلے کوئی اور دروازہ بھی آتا ہے۔
جب مجھے اسمبلیوں میں قدر آور نظر نہ آئے تو میں نے چند اور مجالس کا رُخ کیا۔ ان مجالس میں اہل قلم تھے۔ جب خاص مرحلوں پرخاص مقاصد کے لئے ان کے رُخ مڑتے دیکھے تو کنارہ کشی بہتر جانی۔ ملّائوں سے میں پہلے ہی دور تھا۔ سچ پوچھئے تو یہ آخری رائونڈ چل رہا ہے کیونکہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ نے ملکی دولت کے بعد اب لوگوں کے مذہبی عقائد سے کھیلنا بھی شروع کردیا ہے۔ یہ انتہا ہے۔ اب نیا دور شروع ہونے کے قریب ہے۔ جمہوریت کا نام لینے والے ہی دراصل جمہوریت کے دشمن ہیں۔ انہوں نے جمہوریت کے نام پر جمہور کو دھوکہ دیا ، جمہور سے جھوٹ بولا، جمہور کو لوٹا، نوچا، رسوا کیا۔
پروفیسر خدیجہ ضیاء ڈار ایک عرصے تک ایف سی کالج لاہور میں انگریزی زبان میں لیکچر دیتی رہیں۔ پچھلے دنوں اسلام آباد میں ایک محفل میں مجھ سے خالصتاً پنجابی میں مخاطب ہوئیں، کہنے لگیں ’’کہاں گئے پڑھے لکھے لوگ، کہاں گئی سول سوسائٹی؟ کیا ہوا لوگوں کو، لوگ بولتے کیوں نہیں؟ ملک لٹ رہا ہے، معیشت بیمار ہوگئی ہے، سیاستدانوں نے ستیاناس کردیا ہے اور مجھے حیرت ہے کہ پڑھا لکھا طبقہ بھی خاموش ہو گیا ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟‘‘ پروفیسرصاحبہ کے سارے سوال اہم تھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ اشفاق احمد نے کہا تھا کہ ’’اس ملک کی بربادیوںکا ذمہ دارپڑھا لکھا طبقہ ہے۔ سائیکل کو پنکچر لگانے والا خاک کرپشن کرے گا، کرپشن تو وہی کرے گا جو خود کو پڑھا لکھا سمجھتا ہے اور کسی نہ کسی طرح ذمہ دارعہدے پر براجمان بھی ہے۔‘‘ 
پروفیسر صاحبہ! آپ سمیت اس ملک سے محبت کرنے والے سب لوگ ناخوش ہیں۔ ان کے سامنے سیاسی اشرافیہ ملک لوٹ رہی ہے۔ جہاں تک پڑھے لکھے طبقے کی خاموشی کا سوال ہے تو انہوں نے سچائی کی آنکھ پر دولت کی عینک چڑھا لی ہے۔ بیوروکریسی کی پوسٹنگ میں جان ہے اور پوسٹنگ سیاسی اشرافیہ عطا کرتی ہے۔ وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ رہ گئی سول سوسائٹی تو انہیں جو لوگ ’’موم بتیاں‘‘ دیتے ہیں، ان کے مقاصد سیاسی اشرافیہ پورے کر رہی ہے مثلاً بہت سی مغربی قوتیں پاکستان کی بربادی دیکھنا چاہتی ہیں اور آپ کی ساری سول سوسائٹی، جس کے ہاتھ میں ’’موم بتیاں‘‘ ہیں وہ مغربی ملکوں کی نمائندہ ہے۔ ان کے نعرے مغرب کے اشاروں پر بلند ہوتے ہیں مگر یاد رکھنا کہ یہ عہد ختم ہونے والا ہے۔
محب وطن لوگوں کو ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ریاست کام کر رہی ہے۔ اس ملک کے تمام ریاستی ادارے کام کر رہے ہیں۔ سیاسی اشرافیہ اسے چند لوگوں کا فیصلہ کہتی پھرے، اب حساب ہو کر رہے گا۔ ابھی آپ کو لاہوری چیخیں سنائی دے رہی ہیں۔ آئندہ چند دنوں میں آپ کو کراچی اور سندھ سے چیختے ہوئے سیاستدان ملیں گے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو انسانوں کو زندہ جلاتے رہے، جو ظلم کرتے رہے، بھتے لیتے رہے، زمینوں پر قبضے کرتے رہے، ان آوازوں کے ساتھ ہی آپ کو مذہبی شکم پرستوں کی آوازیں بھی سنائی دیں گی ،پھر کوئی چادر والا روئے گا تو کوئی ٹوپی والا پیٹے گا۔ آخری رائونڈ میں لٹیروں کی صدائے احتجاج بلند ہوگی۔ وہ بڑا معصوم بننے کی کوشش کریں گے مگر اس آخری رائونڈ میں ملک لوٹنے والوں کی خیر نہیں۔ اگلا دور ملک سے محبت کرنے والوں کاہے۔ پاکستان سے پیار کرنے والے اگلے دور میں خوش نظر آئیںگے اگرچہ فی الحال ان کی کیفیت اس شعر کے متراد ف ہے کہ؎
ہم مدینہ مزاج لوگوں کی
زندگی کٹ رہی ہے کوفے میں

تازہ ترین