• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام رواں صدی کے اوائل میں قوموں اور ملکوں کے درمیان ایک دوسرے کے وسائل پر تسلط کیلئے کشمکش، کشیدگی اور جنگ و جدل کے خود غرضانہ استعماری و استحصالی رویوں کے بجائے اجتماعی ترقی اور خوشحالی کیلئے باہمی تعاون اور اشتراک کے فروغ کے انقلابی تصور کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا۔ وقت نے اس نظریے کی صداقت پر مہر توثیق ثبت کردی ہے اور آج پاک چین اقتصادی راہداری کی صورت میں اجتماعی ترقی کیلئے تعاون اور اشتراک کا یہ نظریہ دنیا کے درجنوں ملکوں کو جوڑنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ چھ تاسیسی ملکوں چین، روس، قازقستان ،کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان کی قائم کردہ اس تنظیم سے پاکستان بارہ سال پہلے مبصر کی حیثیت سے وابستہ ہوا ۔ جبکہ رواں سال کے وسط میںتنظیم کی مکمل رکنیت کیلئے پاکستان اور بھارت کی درخواستیں بھی منظور کرلی گئیں اور یوں آٹھ ملکوں پر مشتمل یہ تنظیم اب فلاح و کامرانی کی نئی منزلوں کی جانب رواں دواں ہے۔روس کے شہر سوچی میں تنظیم کے سربراہان حکومت کی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ روز وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے شنگھائی تعاون تنظیم کو بجاطور پر امن، استحکام، باہمی رابطوں اور ترقی کا علم بردار قرار دیتے ہوئے اس کی مکمل رکنیت کو پاکستان کیلئے باعث اعزاز ٹھہرایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تجارت، توانائی اور اقتصادی ترقی کے وسیع امکانات کی حامل یہ تنظیم پورے خطے کی خوشحالی اور بہتری میں انقلابی کردار ادا کرسکتی ہے اور پاکستان اسے مزید فعال بنانے میں اپنا کردار بھرپور طور پر ادا کرے گا۔وزیر اعظم نے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ پاکستان کا بازار صارفین بیس کروڑ سے زائد افراد پر مشتمل ہے۔ یہاں وسیع کاروباری مواقع اور جدید ترین بنیادی ڈھانچے کی سہولت بھی موجود ہے۔وزیر اعظم نے واضح کیا کہ باہمی رابطوں کے فروغ اور اقتصادی تعاون کے جس نظریے کی شنگھائی تعاون تنظیم علم بردار ہے ،سی پیک منصوبہ اسے حقیقت بنانے میں نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے۔ان کے بقول پاک چین اقتصادی راہداری سے شنگھائی تعاون تنظیم کی چھ بڑی تجارتی راہداریوں کو باہم منسلک کرنے میں مدد ملے گی۔اس سے نہ صرف زمینی بلکہ سمندری رابطے بڑھیں گے اوریوں مشرق وسطیٰ اور چین سمیت جنوبی ایشیائی ملکوں کی باہمی تجارت کو فروغ حاصل ہوگا۔اجلاس کے بعد جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے کے مطابق رکن ملکوں کے مابین مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کی خاطر خصوصی اقدامات پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اجلاس میں شریک سربراہان حکومت کی جانب سے نوع انسانی کی بقا و سلامتی کیلئے بین الاقوامی قانون، باہمی احترام اور مفید تعاون پر مبنی کثیرجہتی اشتراک اور منصفانہ عالمی نظام کے قیام کو ناگزیر قرار دیا گیا اور لوگوں کے معیار زندگی کی بہتری کو تنظیم کی ترجیحات میں شامل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔پاک چین اقتصادی راہداری اور چین کے ایک خطہ ایک سڑک منصوبے کی تمام رکن ملکوں نے حمایت کی تاہم منظر عام پر آنے والی تفصیلات کے مطابق بھارت کا نام ان ملکوں میں شامل نہیں ہے اور یہ بہرحال ایک قابل توجہ معاملہ ہے۔مودی حکومت کو جان لینا چاہیے کہ دنیا کا مستقبل شنگھائی تعاون تنظیم اور سی پیک جیسے منصوبوںسے وابستہ ہے۔ ایک خطہ ایک سڑک کے تصور نے جتنے بڑے پیمانے پر عالمی حمایت پائی ہے اس سے واضح ہے کہ بھارت اسے ناکام نہیں بناسکتا۔لہٰذا اسے اس مقصد کیلئے پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی لاحاصل کوششیں ترک کردینی چاہئیں۔ مودی حکومت کیلئے ہوشمندی کی راہ یہی ہے کہ وہ نوشتہ دیوار سے نظریں چرانے کے بجائے شنگھائی تعاون تنظیم کے مقاصد کی تکمیل کیلئے باقی رکن ملکوں سے مل کر کام کرے اور عالمی امن واستحکام کی نقیب اس تنظیم کا مفید حصہ بن کر خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والی بھارت کی دوتہائی سے زیادہ آبادی کیلئے بھی اور خطے کے باقی اربوں عوام الناس کیلئے بھی ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں کشادہ کرنے میں اپنا کردار مؤثر طور پر کرے کہ اسی میں بھارت سمیت پورے خطے اور پوری انسانی برادری کی فلاح ہے۔

تازہ ترین