• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چار سو پانچ دن ، اس مقدمے میں کہاں کب اور کیا ہوا

Todays Print

اسلام آباد (زاہد گشکوری) ملک کی اعلی عدلیہ آج جمعہ کو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے مقدمے کا فیصلہ سنائے گی، اس سلسلے میں عدالت نے 405 روز تک 51 سماعتوں میں 101 گھنٹے طویل دلائل سنے ہیں جو دونوں فریقوں کے وکیلوں نے پیش کیے۔ تمام نظریں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب لگی ہوئی ہیں جن نے ملک کے اعلیٰ ترین قانونی دماغوں کو سنا ہے۔فاضل عدالت کے تین رکنی بینچ نے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کی درخواست جس میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کو نااہل قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی،سماعت کی۔ یہ درخواست اثاثے ظاہر نہ کرنے اور مدعا علیہان کی آف شور کمپنیوں کی موجودگی پر دائر کی گئی تھی۔ دونوں فریقوں کے وکلا نے 73 سے زائد مقدمات کے حوالے دیے۔ انہوں نے ایک درجن مختلف ممالک جیسے بھارت، امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، بنگلادیش، نیوزی لینڈ اور یورپین ممالک میں دیے گئے عدالتی فیصلوں کے تین درجن اقتباسات بھی پڑھے۔ عدالت کے سامنے 7 ہزار صفحات پر مشتمل مواد پیش کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے پانچ مختلف کتابوں سے حوالے پیش کیے۔ اس مقدمے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ کس طرح عمران خان نے مغرب میں بطور کرکٹر لاکھوں ڈالر جمع کیے اور کس ذریعے سے وہ رقم 1980 میں پاکستان منتقل کی گئی تاکہ وہ بنی گالا تعمیر کر سکیں۔ عمران خان اور جہانگیر ترین نے کیوں ایف بی آر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرائے گئے ڈکلیئریشن میں آف شور کمپنیوں کا ذکر نہیں کیا۔؟ تین ججوں نے حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ، عمران خان اور جہانگیر ترین کے وکیل نعیم بخاری اور سکندر بشیر محمد سے 237 سوالات پوچھے۔ اکرم شیخ پاناما کیس سے وابستہ مماثلتیں تلاش کرتے رہے جہاں سابق وزیراعظم نواز شریف کو عدالت کی جانب سے نااہل قرار دیا گیا تھا۔ پاناما کیس کے بعد یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اور اہم مقدمہ دکھائی دیتا ہے۔ ججوں اور کاؤنسل کی جانب سے عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان کانام 205 مرتبہ لیا گیا۔ ایک مرتبہ کورٹ روم نمبر ایک میں دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب معزز جج نعیم بخاری کو ڈھونڈ رہے تھےجو اس وقت عدالت میںموجود نہیں تھے۔ ججوں کی جانب سے انہیں تلاش کرنے کا حکم دینے کے بعد 65 منٹ بعد وہ پہنچے۔ یہ نمائندہ شاہد ہے کہ یہ انور منصور خان تھے جنہوں نے عدالت کو یقین دلایا کہ بخاری جلد ہی یہاں موجود ہوں گے۔ انور غیرملکی فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہے تھے۔عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے 17 طویل گھنٹوں تک دلائل دیے۔ انہوں نے 18 مختلف ممالک کی عدالتوں کے 152 مقدمات کا حوالہ دیا۔ نعیم بخاری نے اپنے دلائل سمٹنے کے لئے 45 گھنٹے سے زیادہ کا وقت صرف کیا جبکہ سکندر بشیر سپریم کورٹ کی معاونت میں 18 گھنٹے کا وقت لیا۔ انور منصور نے ججز کو قائل کرنے میں 11 گھنٹے لگائے کہ پی ٹی آئی غیرملکی فنڈز قبول نہیں کر رہی تھی اور یہ کہ اس کیس کے اجزا براہ راست پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت ای سی پی سے منسلک ہیں۔ باقی ماندہ وقت اکرم شیخ نے لیا جن کی معاونت ایک اور سینئر وکیل نے کی۔ اس نمائندے نے خوش قسمتی سے دونوں مقدمات عمران خان بمقابلہ حنیف عباسی اور پاناما پیپرز بمقابلہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی کاروائی دیکھی ہے۔ پاناما کیس کی سماعت 126 روز ہوئی، جہاں ملک کے اعلی قانونی دماغوں نے 35 سماعتوں میں ججوں کے 111 قیمتی گھنٹوں کا وقت لیا۔ اس مقدمے میں نہ تو مسٹر خان اور نہ ہی پارٹی کے کسی اعلی رہنما نے شرکت کی جبکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے پاناما کیس کی 35 میں سے 32 کاروائیوں میں کمرہ عدالت میں 94 گھنٹے خرچ کیے تھے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم نواز شریف یا ان کے بچوں نے پاناما کیس کی ایک بھی سماعت میں شرکت نہیں کی۔ کچھ وکلا کو ان پیچیدگیوں میں حقیقی مماثلتیں نظر آتی ہیں جن سے پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کا سیاسی مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اعلی قانونی اذہان کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کی قسمت سنگین طور پر معلق ہے جبکہ عمران خان اس کیس میں بچ سکتے ہیں۔ صرف وقت ہی بتائے گا کہ اس کیس کا آج کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔

تازہ ترین