شریف برادران کی سعودی عرب کے دورہ سے واپسی کے بعد آئندہ ایک دو ماہ ن لیگ کی سیاست کے لیے بہت اہم ہوں گے۔ اپنے گزشتہ کالم ’’نواز شریف سے جاتی امراء میں کون ملا؟؟‘‘ میں نے اپنے تجزیہ میں یہ امکان ظاہر کیا تھا کہ شریف برادران اپنے لیے این آر او مانگنے سعودی قیادت کے پاس نہیں پہنچے بلکہ اُنہیں وہاں بلایا گیا جس کا فوکس سعودی عرب کے اپنے اندرونی اور بیرونی مسائل ہیں جن کو حل کرنے کے لیے انہیں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔ میری نظر میںشہباز شریف کو بلانے کی وجہ یہ تھی کہ کئی دوسروں کی طرح پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سعودی قیادت کا اندازہ ہے کہ شہباز شریف پاکستان کے اگلے وزیر اعظم ہوں گے اس لیے اُن سے اُن معاملات پر ابھی بات ہو جائے جو دونوں ممالک کے تعاون کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ میںنے یہ بھی لکھا تھا کہ شریف برادران اس دورے کے دوران خادمین حرمین شریفین سے دعا اور دوا کی درخواست کر سکتے ہیں تاکہ وہ اور ن لیگ غیبی قوتوں کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ جس دن (گزشتہ سوموار) میرا یہ کالم شائع ہوا اُسی روز میں نے شریف برادران کے ایک قریبی اور با خبر ذرائع سے بات کی تا کہ معلوم کیا جا سکے کہ سعودی عرب میں ہو کیا رہا ہے۔ یہاں شریف برادران سے تحقیقات اور اُن کی طرف سے ملک چھوڑ کر وہاں پناہ لینے کی باتیں ہو رہی تھی لیکن مجھے بتایا گیا کہ دونوں بھائی سعودی حکمرانوں کی دعوت پر سعودی عرب پہنچے جہاں میٹنگز کا مقصد سعودی عرب کی یہ خواہش تھی کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان موجودہ تعاون جاری رہنے چاہیے۔جیسا کہ میرا تجزیہ تھا، ذرائع کے مطابق شہباز شریف کو سعودی حکمران پاکستان کے ممکنہ مستقبل کےوزیر اعظم کی حیثیت سے ہی ملے۔ جب میں نے ذرائع سے پوچھا کہ کیا شریف برادران نے کسی این آر او کی درخواست کی یا کم از کم غیبی قوتوں کے اثرات سے بچنے کے لیے مدد مانگی ۔ اس پرمجھے بتایا گیا کہ کسی این آر او کی کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی غیبی قوتوں کے لیے کسی دعا یا دوا کی درخواست کی گئی۔ ذرائع نے البتہ یہ ضرور کہا کہ ہاں یہ معلوم نہیں کہ سعودی حکمران خود سے ہی دعا اور دوا کا بندوبست کر لیں تاکہ ن لیگ کو آئندہ قومی الیکشن کے دوران غیبی قوتوں کے سائے سے پاک رکھا جائے۔ اب ہوتا کیا ہے اس کے لیے آئندہ ایک دو ماہ بہت اہم ہوں گے جس دوران سیاسی نظر رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ محسوس کر پائے گا کہ دعا اور دوا کا کتنا اثر ہوا۔ ن لیگ اور شریف برادران کو یہ پتا ہے کہ میاں نواز شریف خود آئندہ الیکشن نہیں لڑ سکتے لیکن اس کے باوجود لیگی پر امید ہیں کہ 2018 الیکشن ن لیگ ہی جیتے گی۔ لیکن انہیں خطرہ ہے کہ کوئی سازش، کوئی قوت اُن کے لیے الیکشن کو مشکل نہ بنا دے۔ ن لیگ کی کوشش ہے کہ کسی طرح غیبی طاقتوں کو نیوٹرل کیا جائے۔ اب کیا ہو گا اس کے لیے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔ جہاں تک سعودی عرب کے شاہی خاندان کا تعلق ہے وہ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ضرور خواہش کرے گا کہ شہباز شریف ہی وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالیں کیوں کہ اُن کے شریف خاندان کے ساتھ دیرینہ تعلقات استوارہیںاور سعودی عرب کو جس صورتحال کا اس وقت سامنا ہے اُن کے تناظر میں وہ چاہیںگے کہ پاکستان کی حکومت، فوج اور انٹیلیجنس اسٹبلشمنٹ اُن کی مشکلات اور مسائل کو بھائیوں کی طرح سمجھیں اور حل کرنے میں مدد دیں۔ لیکن شریف برادران کے دورہ سعودی عرب نے پاکستان کے اندر سیاست میں مزید گرما گرمی پیدا کی اور اس شبہ کو ہوا دی کہ کوئی این آر او ہونے جا رہا ہے۔ سوال یہ بھی اٹھایا گیا کہ شہباز شریف کو سعودی عرب کیوں بلایا گیا؟ بات تو ٹھیک ہے جب وزارت عظمی کے امیدوار تین ہیں تو خصوصی کرم صرف ایک پر کیوں؟ ممکنہ طور پر شہباز شریف کے ساتھ ساتھ عمران خان اور بلاول زرداری بھٹو بھی وزارت عظمی کے امیدوار ہیں اور ان میں سے کوئی بھی الیکشن جیت کر وزیر اعظم بن سکتا ہے تو پھر سعودی حکمرانوں نے صرف شہباز شریف کو ہی کیوں بلایا؟ اس امتیازی سلوک کے تناظر میںمطالبہ تو بنتا ہے کہ سعودی عرب دو مزید خصوصی طیارے پاکستان بجھوا کر عمران خان اور بلاول زرداری کو بھی سعودی عرب کا دورہ کروائیں۔