• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرانس کے آزاد اور خود مختار ادارے...خصوصی تحریر…رضا چوہدری

مغربی معاشرے پر تنقید کرنا انتہائی آسان کام ہے مگر اگر غور کیا جائے تو اس میں بعض مثبت پہلو بھی ہیں یہاں آباد تارکین وطن یہاں کے تعلیمی نصاب پر اکثربڑی تنقید اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں مگر بعض یہاں کے اسکولوں کالجوں میں زیر تعلیم اپنے بچوں پر فخر بھی کرتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے سمجھ میں آرہا ہے کہ ہم بعض اوقات خواہ مخواہ تنقید کرتے رہے یہاں تو ہمارے بچے بہترین انسان بن کر ابھر رہئے ہیں یہ تعلیم کا اثر ہے کہ وہ نہ جھوٹ بولتے ہیں نہ اس کو پسند کرتے ہیں بلکہ اکثر اوقات والدین کو بھی غلط کاموں سے روک دیتے ہیں۔ قانون کی پاسداری، دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا ان کا شیوا بن چکا ہے کیونکہ وہ ابتدائی تعلیم کے دوران ہی معاشرتی ماحول، سول سوسائٹی سے مکمل طور آگاہ ہوجاتے ہیں۔ بچوں میں تعلیم سے یہ شعور بیدار ہو گیا کہ بچپن کی غلط کاریوں سے کس طرح اور کیونکر دور رہنا ہے، ہمارے ملک اور معاشرے میں پردہ پوشی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے مگر اکثریت اس جانب توجہ نہیں دیتی جس کے باعث ایسے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کی وجہ سے دیار غیر میں بسنے والوں کو شرمندگی ہوتی ہے۔ آپ یقین کریں اسکول سے اپنی بچی کو لینے گیا تو گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے کہا ابو ہم پاکستانی ہیں مگر آئے روز اسکول میں دوسرے بچوں سے ایسی باتیں سنتے ہیں کہ شرم محسوس ہوتی پھر اس نے روتے ہوئے قصور میں زینب کے ساٹھ پیش آنے والا واقعہ سنایا اور کہا کہ اتفاق کی بات ہے آج انگلش کے مضمون میں ملا لہ یوسفزئی پر لیکچر تھا اور کہا کہ کیا وہاں اتنے ظالم لوگ رہتے ہیں، یہ بات سن کر میں افسوس، دکھ، ذہنی دبائو اور غصہ کی حالت میں بڑی مشکل سے گھر پہنچا کہ اس غلیظ اور ناپاک واقعے کے حوالے سے مجھے کتنے مقامات پر ذلت برداشت کرنا پڑے گی۔ قصور کی رہائشی سات سالہ زینب اپنے گھر سے قران پاک پڑھنے نکلی تھی میرے لئے سب زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مقدس کتاب قرآن پاک کی تعلیم کی غرض سے نکلنے والی معصوم بچی کی لاش کوڑے کے ڈھیر پر پڑی ملی۔ پاکستانی بے قصور زینب کی سوشل میڈیا پر تصاویر اور یادوں سے وابستہ فوٹیج دیکھ کر اذیت و شرمندگی میں مبتلا ہیں ان کا ایک ہی سوال ہے کہ کوئی تو کہے کہ ہاں زینب اور اس طرح کہ تمام معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچا یا جائے گا، ان کو سرعام لٹکایا جائےگا؟ تاکہ آئندہ کوئی درندہ صفت کسی بھی معصوم کلی کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھے۔ تلخ ہے مگر حقیقت تو یہی ہے کہ یہ ایک زینب کا واقعہ نہیں بلکہ زینب جیسی نہ جانے کتنی بچیاں ہیں جو روزانہ کسی نہ کسی درندے کی ہوس کا شکار بنتی ہیں اور ایسے واقعات کی ایک بڑی تعداد رپورٹ ہی نہیں ہوتی اور جو واقعات رپورٹ ہوتے ہیں ان کے ملزمان اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچتے۔ زینب کے ساتھ ہونے والے اس ظلم نے انسانیت پر لگے پرانے زخم بھی کرید ڈالے ہیں۔ صوفی شاعر و بزرگ حضرت بابا بلھے شاہ کی سرزمین قصور جس کے متعلق دنیا یہ جانتی ہے کہ یہ دھرتی جہاں کسی دور میں علم و نور کے چشمے پھوٹتے تھے، گزشتہ کچھ عرصہ سے کمسن بچیوں سے زیادتی اور قتل کے واقعات کی وجہ سے خوف کی علامت بن گئی ہے۔ چند ماہ کے دوران12 کمسن بچیاں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ابدی نیند سلادی گئیں مگر افسوس کوئی قاتل سلاخوں کے پیچھے نہیں۔ جن کمسن بچیوں کو مبینہ طور پر زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ان میں ساڑھے چار سالہ ایمان فاطمہ، گیارہ سالہ فوزیہ، سات سالہ نور فاطمہ، ساڑھے پانچ سالہ عائشہ آصف، نوسالہ لائبہ، سات سالہ ثنا عمر، پانچ سالہ کائنات بتول وغیرہ شامل ہیں۔ ان واقعات میں مماثلت پائی جاتی ہے، زیادتی اور قتل کے زیادہ تر واقعات تواتر کے ساتھ قصور کے ایک مخصوص علاقے میں ہوئے ہیں جن میں ملزم کا طریقہ واردات ایک جیسا ہے۔ ملزم بچیوں کو اغوا کرتا ہے، زیادتی کا نشانہ بنانے اور گلا دبا کر قتل کرنے کے بعد لاش کسی ویران علاقے یا جوہڑ میں پھینک کر فرار ہو جاتا ہے، اغوا کرنے کے بعد ایک دن دو دن نہیں تین چار روز ہر طرح کا تشدد کیا جاتا۔ ضروری ہے کہ مجرموں کے ساتھ ساتھ ان پناہ گاہوں کو تلاش کیا جائے جہاں یہ درندے رہتے ہیں، کچھ عرصہ قبل تو پولیس غیرقانونی طور پر مکان کرایہ پر دینے کی باقاعدگی سے پڑتال کرتی تھی اور ہزاروں افراد پر مقدمات بھی درج ہوئے تھے۔ ان جرائم کو روکنے کے لئے ابتدائی تعلیم میں بچوں بچیوں کو ان کے ساتھ کئے جانے والے جرائم کے بارے میں آگاہ کرنا ہوگا، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خصوصی طور پر پولیس کو سیاست سے بالکل پاک کرنا ہوگا تاکہ تھانہ کلچر ختم ہو سکے، پولیس کا نظام موثر بنانا ہوگا، فرانس میں پانچ قسم کے پولیس کے محکمے کام کر رہےہیں۔حکومت سے اپیل ہے کہ محکموں کو خودمختار، آزاد اور بااختیار بنائیں تاکہ وہ معیار اور میرٹ پر افسران اور ماتحت تعینات کرکے اپنے اداروں کا وقار بلند کریں۔

تازہ ترین