• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیر ملکی اثاثوں کی ڈیکلیریشن اسکیم کاڈرافٹ وزیر اعظم کو بھجوادیا گیا

اسلام آباد(مہتاب حیدر)غیر ملکی اثاثوں کی ڈیکلیریشن اسکیم متعارف کرانے کے لیے ڈرافٹ وزیراعظم کو بھجوادیا گیا ہے۔اس اسکیم سے ٹیکس کی مد میں 2سے 4ارب ڈالرز حاصل کیے جاسکتے ہیں، جب کہ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کسی بھی وقت اس معاملے پر اجلاس طلب کرینگے۔تفصیلات کے مطابق، ایف بی آر نے ایمنسٹی اسکیم کا ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے، جس کا عنوان ’’غیر ملکی اثاثوں کی ڈیکلیریشن اسکیم ‘‘رکھا گیا ہے۔یہ ڈرافٹ وزیرا عظم شاہد خاقان عباسی کو بھجوایا گیا ہے ، جس میں مجوزہ ٹیکس شرح 3سے 5فیصد رکھی گئی ہےتاکہ آف شور اثاثوں کو پاکستان واپس لایا جاسکے ۔یہ ڈرافٹ بالکل انڈونیشائی ماڈل کی طرز پر تیار کیا گیا ہے۔ٹیکس حکام نےن لیگ کی موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے سے قبل اربوں روپے مالیت کے زیر التواء ٹیکس جمع کرنے کے لیے بھی ایک اور جامع منصوبہ بندی کی ہے تاکہ جہاں بھی ریفنڈ پیمنٹ آرڈرز(آر پی اوز) جاری کیے گئے تھے ، وہاں سے ایف بی آر کی پھنسی ہوئی تمام رقوم بازیات کی جاسکے۔وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے اعلیٰ عہدیدار نے دی نیوز کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ غیر ملکی اثاثوں کی ڈیکلیریشن اسکیم(فیڈز)کا ڈرافٹ اب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے پاس ہے۔جس میں ایف بی آر نے انڈونیشیائی ماڈل کو اختیار کرنے کی تجویز دی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس کی شرح کم کرکے 3سے5فیصد تک لائی جائے تاکہ اثاثہ جات کو ریگولرائز کیا جاسکے، تاہم اس اسکیم سے مستفید ہونے والوں کو کسی بھی غیر ملکی کرنسی میں اثاثہ جات کی قیمت ظاہر کرنا ہوگی ، جس کے بعد اس مالیت کے برابر پاکستانی روپوں میں ٹیکس کی ادائیگی کرنا ہوگی۔ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر اس مجوزہ اسکیم سے مستفید ہونے والے افراد کو رازداری کی یقین دہانی کرائی جائے اور انہیں نیب اور انسداد منی لانڈرنگ قوانین سے تحفظ فراہم کیا جائے تو پاکستان کو فوری طور پر 2سے4ارب ڈالرز ٹیکس کی مد میں حاصل ہوسکتے ہیں۔ انڈونیشیا ،ٹیکس شرح میں کمی کرکے 30سے40ارب ڈالرز اپنے خزانے میں واپس لایا تھا۔پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد مختلف ممالک نے متعدد ایمنسٹی اسکیمز متعارف کرائی تھیں تاکہ اپنے ملک کے شہریوں کے غیر ملکی اثاثوں کو ریگولرائز کیا جاسکے۔پاکستان نے بھی اسی سبب انڈونیشائی ماڈل کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔حکومت نے ملکی اثاثہ جات پر ایمنسٹی دینے کی تجویز مسترد کردی تھی اور کہا تھا کہ صرف غیر ملکی کمپنیوں اور اثاثہ جات کے حامل افراد ہی اس اسکیم سے مستفید ہوسکیں گے۔حکومت نے اب تک اس بات کا فیصلہ نہیں کیا ہے کہ اس تجویز پر عمل درآمد کس طرح ہوگا۔اس کے دو ممکنہ طریقہ کار ہوسکتے ہیں ، ایک تو یہ کہ پارلیمنٹ سے اس اسکیم کی منظوری لے لی جائے، جو کہ ناممکن نظر آرہا ہے کیوں کہ پارلیمنٹ میں حکمران جماعت کی اکثریت نہیں ہے۔دوسرا طریقہ کار یہ ہے کہ بذریعہ آرڈیننس اس کا نفاذ کیا جائے ، جس کے بعد اسے آئندہ بجٹ میں منی بل کا حصہ بنا کر پارلیمنٹ سے پاس کیا جائے۔
تازہ ترین