• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تالیاں بجا کر ’’جشن فتح‘‘ منایا جا چکا ہے ۔معصوم بچی کے گھر والے پریشان ہیں کہ تالیاں کس بات پر بجائی گئیں،مسکراہٹوں کا تبادلہ کیوں ہوا، ہنستے مسکراتے چہروں کا منظر کیمرے کی آنکھ نے کیسے محفوظ کیا؟یہ سارا منظر کئی سوالات پیچھے چھوڑ گیا ہے ۔آج میں کچھ سوالات اس منظرکے حوالے سے کروں گا اور کچھ اور انوکھے سوالات پس منظر میں ہوں گے ۔
امریکہ میں مقیم میرے ایک دوست زاہد چودھری نے مجھ سے بہت ہی عجیب سوال کر دیا ہے ۔زاہد چودھری جنہوں نے قانون کی تعلیم لے رکھی ہے وہ پوچھتے ہیں کہ ’’...محلے کے تمام لوگ، سب چھوٹے بڑے ایک دوسرے کو جانتے ہیں، میں محلے داروں کو جانتا ہوں ہر محلے میں لڑکے ایک دوسرے کو جانتے ہیں، ہر اسکول میں طالب علم ایک دوسرے سے شناسا ہوتے ہیں، پورے پندرہ دن سی سی ٹی وی کی ویڈیو چلتی رہی، آخر یہ کونسا محلہ تھا جہاں کے باسیوں کو اپنے محلے دار کی شکل یاد نہ رہ سکی، چلو زینب کے گھر والےسوگ میں تھے باقی محلے دار کیسے خاموش رہے، وہ اس کی شکل کو کیوں نہ پہچان سکے، وہ جن محفلوں میں جاتا تھا وہ لوگ کیوں نہ پہچان سکے، جن لڑکوں کے ساتھ اسکول میں پڑھتا تھا وہ کیوں نہ پہچان سکے، یہاں تو ٹی وی چینل پر کسی کی تصویر آئے تو اسے بیس فون آجاتے ہیں یہ تصویر تو پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز پر چلتی رہی، اخبارات میں شائع ہوتی رہی پھر یہ کیا معاملہ ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہ چلا کہ یہ عمران ہے حالانکہ عمران علی تو نعتیہ محفلوں میں جاتاتھا، وہ کوئی چھپ کر تو جوان ہوا نہیں یہ معاملہ کوئی اور ہے محلے کا کوئی لڑکا جو مرضی لباس پہن لے، سر منڈوا لے، داڑھی رکھ لے، کلین شیو ہو جائے، محلے والے اسے آسانی سے پہنچان لیتے ہیں، یہاں ایسا کیوں نہ ہوسکا؟....‘‘
اس کیوں کا جواب تو حکومتی ادارے ہی دے سکتے ہیں البتہ مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ ایک محلے میں رہنے والے ایک دوسرے کو بخوبی جانتے ہیں، اور یہ محلہ کوئی ڈی ایچ اے نہیں، ماڈل ٹائون نہیں بلکہ ہمارے دیہاتوں، قصبوں اور چھوٹے شہروں کا محلہ ہے جہاں کوئی بھی محلے داروں سے اوجھل نہیں ہو سکتا، جہاں ہر کسی کو ہر کسی کا پتہ ہوتا ہے حتی کہ مہمانوں کا بھی پتہ ہوتا ہے کون کس کے گھر مہمان آیا ہے ۔
میرے ایک اور دوست نے توجہ ایک اور جانب مبذول کروائی ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’...کسی نے زینب کی پوسٹ مارٹم رپورٹ پڑھنے کی زحمت کی، اس میں درج ہے کہ زیادتی متعدد بار ہوئی اور متعدد لوگوں نے کی، اور بھی سائنسی ثبوت ہیں، گروہ کا ایک فرد پکڑ لینے پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں، پورا گروہ کیوں نہیں پکڑا گیا، اس میں کون کون ملوث ہے ؟....‘‘
اس کون اور کیوں کا جواب بھی حکومتی اداروں کے پاس ہی ہو گا۔میرے ایک اور دوست کہتے ہیں ’’....عمران مستری بھی نہیں، عمران کے چالیس کے لگ بھگ بنک اکائونٹس ہیں، جن میں سے اکثر فارن کرنسی اکائونٹس ہیں، اس کے بنک کے کھاتوں میں کروڑوں ڈالرز کا چکر ہے ، اس کے پس پردہ کون ہیں، میرے پاس ایک اہم شخصیت کا نام ہے اس اہم شخصیت کے علاوہ ایک وفاقی وزیرکا نام بھی ہے ...‘‘
ان تمام ناموں سے متعلق تو میرا دوست ہی بتا سکتا ہے یا پھر حکومتی ادارے بتا سکتے ہیں، پولیس کی کارکردگی پے مجھے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے۔نیویارک پولیس ،لندن پولیس او رپنجاب پولیس کے افسران بیٹھے تھے بات چل نکلی کہ کون کتنی دیر میں جنگل سے شیر پکڑتا ہے۔ نیویارک پولیس کا افسر بولا، ہم آدھے گھنٹے میں پکڑ لیتے ہیں، لندن والا کہنے لگا کہ ہمیں چالیس منٹ لگتے ہیں، پنجاب پولیس کا افسر بولا ہمیں صرف دو منٹ لگتے ہیں، تینوں کے سامنے بیٹھے جج نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے ؟پنجاب پولیس والا بولا، ہمیں پہلے سے پتہ ہوتا ہے ۔ اس بات پر جج نے کہا کہ نہیں یہ سب زبانی باتیں ہیں، تم تینوں عملی طور پر شیر پکڑ کر دکھائو گے سب سے پہلے باری نیویارک پولیس کی تھی، ان اہلکاروں نے ہیلی کاپٹر منگوا لئے نائٹ ویژن کیمرے منگوا لئے، ہتھیاروں سے لیس ہو کر جنگل چلے گئے اور آدھے گھنٹے بعد شیر پکڑ کر لے آئے ۔اس کے بعد لندن پولیس گئی ان کے پاس بھی جدید ترین آلات تھے وہ چالیس منٹ بعد شیر پکڑ کر لے آئے۔ اب پنجاب پولیس کی باری تھی اس کے صرف دو اہلکار گئے اور دو منٹ بعد واپس آ گئے ان کے ہاتھوں میں ایک خرگوش تھا جج نے پوچھا کہ یہ تو خرگوش ہے یہ شیر نہیں ہے، اس پر پنجاب پولیس کا افسر بولا جج صاحب آپ پوچھ لیں اس سے یہ خرگوش نہیں ہے، جج نے پوچھا تو خرگوش کہنے لگا جی جناب میں ہی شیر ہوں، میں واقعتاً شیر ہوں، میں خرگوش نہیں ہوں۔
خواتین و حضرات !ہم نے مان لیا سارا کارنامہ مان لیا تو پھر یہ تو بتا دیں کہ وہ جو لڑکا مدثر پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا جس پر ایک بچی کا الزام تھا، کیا وہ غلط مارا گیا، اس کا خون کس کے سر ہے کیوں کہ اس کا الزام تو عمران اپنے سر لے رہا ہے، ایسا کیوں ہوا ؟ایسے پتہ نہیں کتنے اندھے قتل ہو گئے ۔ایک زمانے میں اسلام آباد کےسب سے اہم کرائم رپورٹر شمشاد مانگٹ ہی تھے اب وہ ایک اخبار میں گروپ ایڈیٹر ہیں انہوں نے اپنی کرائم رپورٹری کے دور میں ہتھوڑا گروپ کے سربراہ گلاب خان کا انٹرویوکیا تھا اس مقصد کیلئے شمشاد مانگٹ کو جیل جانا پڑا، دوران انٹرویو گلاب خان کہنے لگا ’’...میں چور تھا مگر میرا ہتھوڑا گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا، بس ایک دن چوری کے دوران پکڑا گیا تو پولیس نے مشہور کر دیا کہ ہتھوڑا گروپ کا سربراہ پکڑا گیا ہے، اس کے بعد پولیس مجھے روزانہ مارتی تھی اور کہتی تھی کہ آپ اقبال جرم کریں، بس اس مارپیٹ نے مجھے ہتھوڑا گروپ کا سربراہ بنا دیا ورنہ نہ میرے پاس ہتھوڑا تھا اور نہ ہی میں نے کسی انسان کا سر ہتھوڑے سے کچل کر مارا، اب مجھے پولیس کی مہربانی سے قاتل بھی بننا پڑ رہا ہے ...‘‘
حضرت علی ؓفرماتے ہیں ’’...وقت اور دولت دو ایسی چیزیں ہیں جو انسان کے اختیار میں نہیں، وقت انسان کو مجبور اور دولت انسان کو مغرور بنا دیتی ہے ...‘‘
دوستو !پریس کانفرنس کا منظر بھی ایسا ہی تھا ایک مجبور انسان کے سامنے دوسرے انسانوں کا غرور بول رہا تھا، ہم کس قدر گر گئے ہیں ہم کتنی اخلاقی پستی کا شکار ہو گئے ہیں، ہمارے سامنے جرائم کا ارتکاب ہوتا ہے، ہم چپ رہتے ہیں ہمارے سامنے کئی لوگوں کو مجرم بنا دیا جاتا ہے، ہم اپنے اقتدار اور دولت کی ہوس میں اندھے ہو چکے ہیں، ہمارے ہاں کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کی جاتی ہے مگر ہمیں خدا کا خوف نہیں آتا، ہم اخلاقیات کا درس نہیں دیتے، ہم نے تعلیم ایسے ساہوکاروں کے ہاتھ میں دے دی ہے جو تعلیمی اداروں کو پیسے بنانے والی فیکٹریاں سمجھتے ہیں، ہمارا معاشرہ بربادی کی طرف جا رہا ہے اسی لئے تو ایک پریس کانفرنس میں سربلند رہتے ہیں، ایک ایسی پریس کانفرنس جس میں اخلاقیات کا سر جھک جاتا ہے۔بقول ناصرہ زبیری ؎
وہ بولتی ہوئی آنکھیں ہمیں رہیں ازبر
زبانِ خلق کے سارے کلام بھول گئے
کسے سمجھنا ہے راہزن تو رہنما کس کو
یہ فیصلے کی گھڑی میں عوام بھول گئے.

تازہ ترین