• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک وقوم کے مفاد میں سنجیدہ غور و فکر کے بعد موثر اقتصادی اقدامات موجودہ حالات کا ناگزیر تقاضا ہے۔ غیر ملکی بنکوں میں چھپا کر رکھا گیا پاکستانی سرمایہ کسی بھی صورت میں واپس لاکر اسے اقتصادی منصوبوں یا غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی پر صرف کرنا یا خود ان لوگوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینا ایسے عوامل ہیں جو ہمیں مہنگائی، غیر ملکی قرضوں کے بوجھ اور بیروزگاری جیسے شکنجے سے آزادکرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا ایک مشکل وقت میں یہ کہنا کہ حکومت ایسی پالیسی پر غور کر رہی ہے جس کا مقصد لوگوں کو دوسرے ملکوں میں رکھا ہوا اپنا سرمایہ واپس ملک میں لاکر معیشت کے پیداواری شعبوں میں لگانے کی ترغیب دی جائے گی ایک خوش آئند بات ہے۔ ایسی ہی کامیاب پالیسی اس وقت بنائی گئی تھی جب پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد سنگین اقتصادی بحران کا سامنا تھا لیکن یہ ایک المیہ ہے کہ ماضی میں حکومتوں کی تبدیلی کے بعد کئی فعال منصوبے ادھورے چھوڑ دیئے گئے جنہیں مکمل کرنے کی ضرورت ہے بہت سے ملکوں میں کالا دھن سفید کر کے اسے قومی معیشت کا حصہ بنانے کی مثالیں موجود ہیں۔ وزیراعظم کا یہ کہنا بھی کہ حکومت ٹیکس بنیاد کو وسعت دینے کے لئے ٹیکسوں میں کمی کی تجویز پر بھی غور کر رہی ہے، معیشت کو سہارا دینے کے حوالے سے خوش آئند ہے اس سے سرمایہ کاری بڑھے گی اور ٹیکس نیٹ کو وسعت ملے گی۔ اس وقت صرف سوئس بینکوں میں 200ارب ڈالر سے زیادہ کا پاکستانی سرمایہ محفوظ ہے جبکہ قابل ادا غیر ملکی قرضوں کا حجم اس سے کم یعنی 150ارب ڈالر ہے حکومت پاکستان اور سوئس حکام کے درمیان گزشتہ سال یہ سرمایہ واپس لانے کے سوال پر بات چیت بھی شروع ہوئی لیکن آگے نہ بڑھ سکی۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کو ریلیف دینے کے لئے ان اقدامات پر توجہ دے۔

تازہ ترین