• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیخ مجیب کی بات کرتے ہیں تو یہ راتوں رات نہیں ہواتھا،جاوید لطیف

کراچی(ٹی وی رپورٹ) مسلم لیگ ن کے میاں جاوید لطیف نے پارٹی صدارت سے نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلے کے بعد ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ اس طرح کے فیصلوں سے عوام میں مقبول لیڈر شپ کی مقبولیت نہ کم کی جاسکتی ہے نہ ہوتی ہے ماضی کی مثالیں بہت سی آپ کے سامنے ہیں۔ جب ہم بات کرتے ہیں مشرقی پاکستان کی شیخ مجیب الرحمن کی،یہ راتوں رات نہیں ہوا تھا،یہ جو کچھ ہورہا ہے،ہم کہاں جارہے ہیں۔جاوید لطیف نے مزید کہا کہ نواز شریف کی مقبولیت سے خائف ہو کر اگر انتخابات کو آگے کیا گیا،یہ ریاست کے لئے کسی طور پر مناسب نہیں ہوگا۔ میاں جاوید لطیف کا ایک اور سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ قوم کا موقف یہی ہے جو نواز شریف آگے لے کر چل رہے ہیں کہ اداروں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔وہ جیو نیوز کےپروگرام’’آپس کی بات‘‘میں میزبان منیب فاروق سے گفتگو کررہے تھے۔پروگرام میں پیپلزپارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ ،سینئر تجزیہ کارمجیب الرحمن شامی اورسینئرتجزیہ کار مظہرعباس نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔پروگرام میں پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ کا ایک سوال کے جواب میں کہنا ہے کہ موجودہ معاملات کو مشرقی پاکستان یا اس قسم کی کسی اور مثال کی طرف تشبیہہ دینا مناسب نہیں احساس محرومی کی تصویر کھینچنا بالکل صحیح نہیں۔ جہاں تک پارلیمنٹ کے نیچے ہونے کی بات ہے جو قانون پاس ہوا وہ پارلیمنٹ نے ضرور کیا اور وہ کورٹ نے دوسرے طریقے سے تشریح کی اُس حد تک پارلیمنٹ نیچے آج ہوئی ہے، پارلیمنٹرینزم کے اینگل سے اگر دیکھا جائے تو کوئی بھی پارلیمنٹرین خوش نہیں ہوسکتا لیکن پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی تقاریر سن لیں سب نے کہا تھا کہ آپ اس طرح کا قانون نہ لائیں۔ نفیسہ شاہ کا ایک اور سوال کے جواب میں کہنا ہے کہ مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ قانون جب پیش ہوا لاہور ہاؤس نے اُس کو ریززٹ کیا،ہمارے پاس نمبرز نہیں تھے،آپ ہماری تقاریر سن لیں،ایک ایک تقریر میں نواز شریف کے لئے اُن کی جماعت کے لئے وارننگ تھی ،پیپلز پارٹی ایک بل لے کر آئی جو پھر رجیکٹ ہوا اپر ہاؤس میں ۔ جہاں تک ذوالفقار علی بھٹو کو نواز شریف کے کیس کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے،ایسا نہ کیا جائے۔سنیئر تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے پروگرام کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سپریم کورٹ کسی بھی قانون کو جو پارلیمنٹ پاس کرے بنیادی حقوق کے خلاف قرار دے کر یا اس کی کسی شق کو مسترد کر سکتی ہے یا ختم کرسکتی ہے،اس پر کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا۔اصل بات یہ ہے کہ جو آپ نے فیصلہ کیا ہے اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، آج کے فیصلے میں کچھ غصہ نظر آتا ہے،پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی پارٹی سربراہ کے اقدامات کو ماضی میں جا کر ختم کیا گیا یہاں مارشل لاجو ہیں ایڈمنسٹریٹر اُن کے احکامات اس طرح ختم نہیں کئے گئے جو ہماری ڈوگر کورٹ تھی ججز کے خلاف کارروائی کی گئی اُن کو سپریم کورٹ نے ایوانوں سے باہر نکال دیا لیکن اُن کے فیصلے ختم نہیں کئے،یہ بہت عجیب بات لگی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فیصلے کرتے ہوئے غصہ بھی شامل حال رہا۔قانونی پہلو کو تسلیم کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کو نیا صدر بنانا پڑے گا لیکن سیاسی طور پر یہ بات درست ہے اگر مسلم لیگ ن کے کارکن نواز شریف کی طرف رہنمائی کے لئے دیکھیں تو آپ اُن کواس بات سے کیسے روک سکتے ہیں۔جیو کے پروگرام ”آپس کی بات“میں میزبان منیب فاروق نے پروگرام کے ابتدائیہ میں کہا کہ پاکستان میں آج کا دن اس حوالے سے ہے کہ ایک اہم فیصلہ جولائی 2017 کے بعد آیا جس میں یہ سپریم کورٹ نے ہولڈ کیا کہ میاں نواز شریف پارٹی صدارت کے لئے بھی نااہل ہیں،اس کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے،نواز شریف کا موقف کیسے مضبوط ہوگا یا نقصان پہنچے گا، اُن کی حالیہ الیکشن کی جیت سے یہ تاثر لیا گیا کہ اُن کا موقف کامیاب ہو رہا ہے۔مجیب الرحمن شامی نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ جس وقت نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا اُس وقت بھی شیخ رشید اور اُن کے ہمنواؤں نے یہ بات کہی کہ مسلم لیگ کے اب ٹکڑے ہوجائیں گے،نواز شریف کا نام لیوا کوئی نہیں ہوگا، ٰیہ بات غلط ثابت ہوئی اور اب بھی میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہوگا۔ جوڈیشری کے ساتھ اس طرح کا ٹکراؤ مناسب نہیں ہے،اگر ٹکراؤ کی فضا موجود رہی تو ایسے فیصلے آتے چلے جائیں گے جس سے ہمارے ریاست کے ڈھانچے کو نقصان پہنچے گا۔اس لئے یہ معاملہ روکنا چاہیے اور عدلیہ کو بھی ساری صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف نے کہا کہ ستر سال سے جو کچھ پاکستان میں ہورہا ہے اور ادارے کر رہے ہیں، آج تک کسی ایک عدالت نے آئین توڑنے والے کیخلاف فیصلہ دیا ہے کیا؟ آج تک جو فیصلے آئے مقبول لیڈر ز کیخلاف آئے، عوامی جماعت کو تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں،اسی طرح لیڈر شپ کو بھی تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں، ساڑھے چار سال سے موجود حکومت جس طرح چل رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے یہ حکومت نہیں ہم نے ایک سمجھوتا کر رکھا ہے، وجہ یہ تھی کہ ادارے کے درمیان ٹکراؤ نہ ہو، ہم نے پچھلی دو مدت اقتدار میں بھی پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا ، ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار بھٹو کی جماعت نے پاکستان کو کچھ دیا تھا،انہوں نے اچھا کیا تو ہم یاد رکھتے ہیں،جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ اداروں میں بیٹھے لوگوں سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن سیکھ کر آگے نکلنا چاہئے۔ سینئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ آج کے فیصلے میں دو ایشوز ایسے ہیں جن سے پریشانی ہے، ایک سینیٹ کا الیکشن اور دوسرا ضمنی انتخابات، ان کا کہنا تھا کہ پچھلے چالیس سال میں کوئی ایسا فیصلہ نظر سے نہیں گزر ا جس میں کسی شخص کے ماضی کے کئے گئے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دیا جائے، نصرت بھٹو، پرویز مشرف کا کیس بھی دیکھ لیں، جونیجو کی اسمبلی جب بحال کی گئی چونکہ الیکشن پراسس شروع ہوگیا تھا تو کہا گیا کہ الیکشن میں چلے جائیں، بینظیر کی 90والی حکومت میں بھی یہی کہا گیا، مشرف کو2002میں جس طرح ویلیڈیٹ کیا گیا اس میں بھی اسی طرح ہوا، اس کے علاوہ ڈوگر فیصلوں کو تحفظ دیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ نواز شریف کو پارٹی صدر نہیں ہونا چاہئے تھے، پاناما کیس کے بعد اگر نواز شریف خود اسٹیپ ڈاؤن کر جاتے تو آج سیاست کسی اور صورت میں موجود ہوتی، ضمنی انتخاب اور سینیٹ نمائندوں کو ٹکٹ جو ملے اس سب کا کیا ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ سہر وردی سے اب تک قانون کے اپنے اور سیاستدانوں کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں، مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک ادارے کو بدنام کیا جائے اور سمجھیں کہ سسٹم بہتر ہوگا ، ان کا کہناتھا نواز شریف کو بھٹو کیس سے نہیں ملایا جاسکتا، اس فیصلے سے صرف اس حکومت کو نہیں، آنے والی حکومت کو بھی تکلیف ہوگی۔
تازہ ترین