عزیز بھائی تیمور رحمٰن نے گزشتہ دنوں ایک اچھا مضمون لکھا جس میں روشن خیال مکتب فکر کی پاکستان میں ناکامیوں کے چار اسباب بیان کئے۔ انہوں نے لبرل کا لفظ استعمال کیا تھا۔ یہ لفظ پاکستان کے تناظر میں کچھ ایسا مفہوم اختیار کر گیا ہے جو سیاسیات کے معروف معانی سے الگ سمجھنا چاہئے۔ پاکستان میں لبرل کا مفہوم ہے انگریزی تعلیم یافتہ، مغربی طور طریقے پسند کرنے والا اور مذہب کی مروجہ تعبیر سے کھلا انحراف کرنے والا شخص۔ علم سیاسیات میں لبرل کا یہ مفہوم نہیں ہوتا۔ یاد آتا ہے کہ محترم عطاالحق قاسمی کے ایک ٹیلی وژن ڈرامے میں فخری احمد جب کوئی احمقانہ بات کہتا تھا تو ساتھ میں یہ بھی کہتا تھا کہ میں بڑا لبرل ہوں۔ یہ کھیل اسی کی دہائی میں لکھا گیا تھا۔ تب لبرل کا ایک مفہوم یہ بھی تھا کہ ضیا الحق اور افغان جہاد کی مخالفت کرنے والا۔ لبرل کے لئے لبرل فاشسٹ کا لقب تو ہمارے ایک کالم نگار بھائی کے قلم کا اعجاز ہے۔ 2008 میں جونا گولڈبرگ کی کتاب اس عنوان سے آئی تھی۔ پاکستان میں طالبان کی پردہ پوشی اور عذر خواہی کی پالیسی چل رہی تھی، طالبان کی انتہا پسندی کو جواز دینے کے لئے لبرل کو فاشسٹ کہا گیا۔ اگرچہ فاشزم کے فلسفہ سے ہماری شیفتگی کی کہانی پرانی ہے۔ تحریک خلافت کے مقامی رہنما کو ڈکٹیٹر کہا جاتا تھا اور علامہ مشرقی کا بیلچہ اٹلی اور جرمنی کی فسطائی تحریک سے عاریتاً لیا گیا تھا۔
اس راندہ درگاہ طبقے کے لئے کبھی ترقی پسند کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی تھی۔ لاہور کے چائے خانوں میں ترقی پسندے کی پھبتی اکثر اچھالی جاتی تھی۔ ستر کے انتخابات میں مقبول سیاسی جماعتوں کی مخالفت میں اسلام پسند کی اصطلاح گھڑی گئی تو سرخے کی اصطلاح نے رواج پایا۔ اللہ کے فضل سے اب ہم عام طور پر جانتے ہیں کہ مرحوم کوثر نیازی کتنے سرخ تھے۔ دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم ہمارے ہاں زیادہ تر کتابی بحثوں تک محدود رہی ہے۔ عام آدمی کا سوال تو یہی ہوتا تھا کہ کیا دائیں بازو والوں کا بایاں بازو نہیں ہوتا؟ مگر سیاسی شعور کی عمومی کیفیت ہمارے ہاں یہی رہی ہے کہ دائیں ہاتھ کو کبھی بایاں ہاتھ سجھائی نہیں دیا۔ اپنے موضوع کی مناسبت سے ایک تعریف گھڑ لیتے ہیں کہ پاکستان میں ہیئت مقتدرہ کی مخالفت، رسوم اور روایات سے انکار اور روایت سے انحراف کرنے والوں کو ترقی پسند کہا جاتا ہے۔ مراد دراصل وہی طبقہ ہے جسے بھائی تیمور رحمٰن نے مخاطب کیا ہے۔ یہ خیال البتہ ملحوظ خاطر رہے کہ لکھنے والا کبھی کمیونسٹ پارٹی کا رکن بھی رہا ہے، مادیت کے فلسفے کو اب بھی درست سمجھتا ہے، تاریخ کی مادی تعبیر کو معتبر خیال کرتا ہے۔ سکہ بند ترقی پسندوں میں منحرف اور غدار کہا جاتا ہے اور اصحاب زہد و اتقا کی مجلسوں میں بدستور راندہ درگاہ ہے۔ چناچہ ان نکات کی نشاندہی مخاصمت کی بجائے تفہیم کی کوشش سمجھنی چاہئے۔
برصغیر میں اشتراکی پودا قریب سو برس پہلے پہنچا۔ تاشقند میں ایک خفیہ پارٹی دوسری انٹرنیشنل کے بعد 1920 میں قائم کی گئی۔ 1925میں کانپور کے مقام پر ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ برطانوی راج اشتراکی سوچ سے بری طرح خائف تھا۔ وطن میں مقامی سرمایہ دار کا پرچم لے کر چلنے والی کانگریس انقلابی سوچ سے برگشتہ تھی۔ گاندھی جی پھبتیوں کا نشانہ تھے، نہرو کو گدیلے کا سوشلسٹ کہا جاتا تھا۔ مسلم لیگ کا کہیں نشان نہیں تھا۔۔ سی آئی ڈی والے کمیونسٹوں کو تشدد کی مشق کے لئے استعمال کرتے تھے۔ انقلاب کا مفہوم ایک لچکدار نعرہ تھا۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ ایم این روئے انقلاب کی زمین سوویت یونین سے جان بچا کر کیوں بھاگے تھے؟ نیز یہ کہ برٹرینڈ رسل، جارج آرول اور آرتھر کوئسلر سوویت نظام پر تنقید کیوں کرتے تھے؟ ٹراٹسکی نام کا شخص جلا وطنی میں کیوں تھا؟ سوویت پارٹی کے مرکزی رہنما اس رنگ سے غائب کیوں ہوتے تھے جس رفتار سے ملک اسحاق کے مخالف گواہ فوت ہوجاتے تھے۔ ماننا چاہئے کہ اس تحریک نے ہماری سیاست کو ڈاکٹر محمد اشرف، فیروز الدین منصور اور زیڈ اے احمد جیسے جواہر افراد عطا کئے۔ حالات مشکل تھے اور یہ کہ ترقی پسند ذہن ماسکو کی گلیوں سے کچھ ایسی ہی شیفتگی رکھتا تھا جیسی ہندوستان کے مسلمان نجد اور حجاز سے عقیدت رکھتے تھے۔ فرق یہ تھا کہ ایک کو عقیدت کی فصیل میسر تھی اور دوسرا روایت کی دیوار سے نبرد آزما تھا۔
دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو ہندوستان کا اشتراکی، قدیم آموختہ کی روشنی میں اسے سرمایہ داری کی جنگ کہتا تھا۔ مئی 1941 میں ہٹلر نے سوویت یونین پر حملہ کیا تو ہندوستان کے اشتراکی کو بھی فسطائیت کی خبر ہوئی اور راتوں رات یہ جنگ انسانیت کی لڑائی قرار پائی۔ مسلم لیگ نے ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا تو نئی نئی قانونی قرار پانے والی کمیونسٹ پارٹی نے اسے ریاستوں کے حق علیحدگی کا حصہ قرار دیا۔ سوویت یونین نے ریاستوں کے حق علیحدگی کا افسانہ تراش رکھا تھا۔ مقصد کمیونسٹوں کا یہی تھا کہ مقبولیت پکڑتی ایک تحریک میں گھس کر ایک جگہ بنائی جائے۔ مسلم لیگ کی تحریک مذہبی تشخص کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی۔ اشتراکی سیاست میں مذہب سیاست کا حصہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک تضاد تھا جسے دانیال لطیفی حل کر پائے اور نہ کبھی مرزا ابراہیم۔ آزادی آ پہنچی مگر یہ آزادی اشتراکی انقلاب تو نہیں تھا چنانچہ اسے داغ داغ اجالا قرا ر دیا گیا اور حوصلہ بڑھایا گیا کہ ابھی چلتے رہو کہ اپنی موعودہ منزل نہیں آئی۔ ہندوستان میں بننے والی دونوں ریاستیں اشتراکیت سے خائف تھیں۔ وطن کے استخلاص کا کھل کر خیر مقدم نہیں کیا تو یہ طعنہ گلے پڑ گیا۔ تقسیم کی مخالفت کرنے والے چھلانگ لگا کر نئے وطن کی گاڑی پر سوار ہوگئے اور برطانوی سامراج کے حقیقی مخالف بدستور سی آئی ڈی کی فائلوں پر چڑھے رہے۔ تاہم مشکل صرف آزادی کے تصور میں تو نہیں تھی اس کے لئے تو ہم نے "نئے سامراج" کا نعرہ گھڑ لیا تھا۔ مشکل یہ تھی کہ اشتراکی سوچ میں مقاصد طریقہ کار کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ یہ ایک خوفناک تصور ہے جسے ہر طرح کی بے اصولی اور ظلم کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہی اصول راولپنڈی سازش کی طرف لے گیا۔ سازش ہوئی یا نہیں ہوئی، یہ طے ہے کہ ہمیں جمہوریت کے ممکنہ انہدام پر کوئی پریشانی نہیں تھی۔ ڈبل ڈیکر بس میں بھیڑ زیادہ ہو تو ہم ایک گالی جمہوریت کو دیتے تھے اور دوسری سرمایہ دارانہ نظام کو اور تیسری سامراج کو اور پھر انقلاب کے لئے جھولی پھیلا کر دعا مانگتے تھے۔ اپنے میں اتنا دم کہاں تھا کہ جمہوریت کو انقلاب کے بارود سے اڑاتے۔ یہ بارود تو ایوب خان کی بندوق سے برآمد ہوا۔ بندوق چیئرمین ماؤ کی ہو یا مقامی جرنیل کی، بندوق کی نالی سے استبداد جنم لیتا ہے۔ سرد جنگ میں فریق بن کر ماسکو کی حمایت کرنا غلطی تھی۔ یہ غلطی صرف معیشت کو سمجھنے میں نہیں ہوئی، سیاسی نظام کی حرکیات سمجھنے میں بھی کوتاہی ہوئی۔ آزادی اور جدیدیت کے تقاضے سمجھنے میں بھی ٹھوکر کھائی گئی۔ نہ ہمیں ہنگری کی خبر تھی اور نہ چیکو سلاواکیہ کی۔ ہم تو پیکنگ اور ماسکو کے مجادلے میں صفیں باندھ کر کھڑے تھے۔ سامراج دشمنی کے نام پر مغرب بیزاری کے جو بیج ہم نے بوئے ان کی فصل سرد جنگ ختم ہونے کے بعد بنیاد پرستوں نے کاٹی۔
تقسیم ہند سے پہلے ہم مذہب اور سیاست کا فرق واضح نہ کر سکے اور آزادی کے بعد مذہب کی فلسفیانہ مخالفت کے شوق پر قابو نہیں رکھ سکے۔ اگر مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے تو اسے چائے کی میز پر زیر بحث کیوں لایا جائے؟ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کا مقابلہ مقصود ہو تو مذہب پر یقین رکھنے والے سادھارن انسانوں کو حقارت سے کیوں دیکھا جائے۔ اشتراکی فلسفے میں مذہب کی تفہیم کو تاریخی مادیت سے متصادم کیوں سمجھا جائے؟ غصہ، نفرت اور تفرقہ کو افزودہ کرنا تھا یا محبت، امن اور رواداری کو آگے بڑھانا تھا۔ یہ درست ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں نے بہر صورت ترقی پسند سوچ کی مخالفت کرنا تھی لیکن جن لوگوں کے لئے ساری جد و جہد کی جا رہی تھی انھیں برگشتہ کرنے میں کیا عقلمندی پنہاں تھی؟ جلسہ عام میں فلسفہ کی باریکیاں بیان نہیں کی جاتیں۔ سیاست خیال کے استخواں پر آرزو کا رگ و ریشہ چڑھانے کا نام ہوتا ہے۔ اگر سیاست پالیسی کو تاثر دینے کا نام ہے تو ہم نے پالیسی میں بھی غلطی کی اور تاثر کے تقاضے بھی پورے نہیں کر سکے۔ ہم اپنے ملک کی سیاست میں بھی کردار ادا نہیں کرسکے اور سماج میں بھی حاشیہ پر رہے۔ حاشیہ اور متن میں یہ کشمکش سمجھ لی جائے تو آئندہ راہوں کی نشاندہی آسان ہوسکتی ہے۔