پت جھڑ کی پیڑھی

October 19, 2021

آپ نے کبھی بے بس، بے توقیر، خاموش اور گوشہ نشین نسل Generation کے بارے میں سنا ہے؟ گم گشتہ اور گوشہ نشین نسل کے اب گنتی کے لوگ رہ گئے ہیں،جو رہ گئے ہیں وہ رخت سفر باندھے بیٹھے ہیں ان کے آخری سفر کے سامان میں ان کے خوابوں کی کرچیاں ہیں، تمنائوں اور خواہشوں کی خاک ہے۔ انہوں نے جو سوچا تھا، سب کچھ اس کے برعکس نکلا۔ ان کو کسی سے نہ شکوہ ہے نہ شکایت۔ ان کو مکمل طور پر اپنی نسل کے ضائع ہونے کا دکھ ہے۔ وہ اپنے دکھ پر نوحہ کناں نہیں ہیں۔ زیادہ تر چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے سے لاچار ہیں۔ وہ ٹھیک سے نہ دیکھ سکتے ہیں، وہ نہ ٹھیک سے سن سکتے ہیں اور نہ کسی دستاویز پر دستخط کر سکتے ہیں۔ جوڑوں کے درد اور ذیابیطس نے ان کو معذور کر دیا ہے۔ کچھ تو سب کچھ بھول بیٹھے ہیں۔ کچھ اپنی یادداشت کے ہاتھوں دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ عمر کا تعین کیا جائے تو بے توقیر اور بے بس لوگ نوے برس کے لگ بھگ ہیں اور کچھ گم گشتہ نوے برس سے آگے نکل گئے ہیں۔ دو چار گوشہ نشینوں کو چھوڑ کر، مشکل سے وہ لوگ اپنی عمرکی سنچری مکمل کر سکیں گے۔ خوابوں اور خواہشوں کے تابوت اٹھائے جینے والے لوگ برصغیر کی مشترکہ ناکارہ ، بے فائدہ اور بے سود ذمہ داری ہے، جسے سرحد کی دونوں طرف براجمان حکومتیں اہمیت نہیں دیتیں۔ بوجھ کے علاوہ دونوں حکومتیں ان کو خبطی اور پاگل سمجھتی ہیں۔ برصغیر کے بٹوارے کے بعد ان میں سے جو ہندوستان میں تھے وہ ہندوستان میں رہ گئے ۔ ان میں سے جو نئے بننے والے ملک پاکستان میں تھے، وہ پاکستان میں رہ گئے ، کسی نے ہجرت نہیں کی۔ کسی نے نقل مکانی نہیں کی۔ کوئی شرنارتھی نہیں بنا۔ وہ برصغیر میں جہاں تھے، وہیں رہ گئے۔ چپ ہو گئے، گوشہ نشین ہو گئے ۔ گم گشتہ ہو گئے۔ جس ذہنی نوعیت سے انہیں گزرنا پڑا تھا، اس کا مناسب نام ذہنی الجھنوں میں نہیں ملتا۔ اس ذہنی کیفیت کو آپ مایوسی نہیں کہہ سکتے۔ آپ اس کو پژمردگی نہیں کہہ سکتے۔ آزردگی اور افسردگی سے منسوب نہیں کر سکتے۔معدوم ہوتی ہوئی پیڑھی آج سے اسی نوے برس پہلے بوڑھی اور ناتواں نہ تھی۔ اس پیڑھی سے وابستہ لوگ نوجوان تھے۔ جوان تھے۔ بے کراں جذبے اور جنون سے معمور تھے۔ بھرے ہوئے تھے۔ اس پیڑھی کا سیاست سے کسی قسم کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ وہ انگریز کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنا چاہتے تھے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں سے نکل آتے تھے۔ انگریز حاکموں کو للکارتے تھے۔ چھوٹے بڑے شہروں سے فلک شگاف نعروں کی گونج سنائی دیتی تھی۔

دھرتی ماں، دھرتی ماں، تجھ پر آنچ نہ آنے دیں گے،کبھی کبھی تو لگتا تھا، جیسے آسمانوں سے آواز آتی تھی۔

دھرتی ماں دھرتی ماں ،تجھ پر جان نچھاور کر دیں گے

سر پھرے طلبا کو کچلنے کیلئے انگریز سرکار ضرورت پڑنے پر پولیس کی پشت پناہی کرنے کے لئے فوج کے جتھے جدید ہتھیاروں سے لیس، چھوٹے بڑے شہروں کی گلی کوچوں میں ٹھونس دیتی تھی۔ انگریز فوج ہم ہندوستانیوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ جتھوں کی کمانڈ کوئی گورا چٹا انگریز کرتا تھا۔ گھمسان کے رن میں مسلمان، ہندو اور سکھ طلبا شامل ہوتے تھے۔ مائیں اور بہنیں گھروں کے دروازے کھول کر دہلیز پر بیٹھی رہتی تھیں۔ کوئی بچہ زخمی ہو جاتا تو اس کو فوراً گھر کے اندر لا کر مرہم پٹی کرتی تھیں۔ پیاسوں کو پانی پلاتی تھیں۔ توانا رکھنے کے لئے بچوں کو کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ دیتی رہتی تھیں۔ آج کے دور میں یہ حقائق دیوما لائی قصے لگتے ہیں۔ وہ دور موجودہ دور میں صفحہ ہستی سے مٹنے والی پیڑھی کے عروج کا دور تھا۔ ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا، غلامی کی زنجیریں توڑنا اور انگریز کے شکنجہ سے دھرتی ماں کو آزاد کرانا۔ وہ لوگ اپنے جنون اور دھرتی ماں سے محبت میں اس قدر مگن تھے کہ ان کے اطراف تیزی سے رونما ہونے والے بین الاقوامی حالات سے وہ بےخبر تھے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ برصغیر کے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے کو فوقیت نہیں دیتے تھے۔ وہ لوگ فرنگی کو اپنے ملک سے نکالنے کے در پے تھے۔ یہی ان کا نصب العین تھا۔ یہی ان کا مقصد حیات تھا۔ پاکستان اور ہندوستان کی گم گشتہ ہوتی ہوئی مشترکہ پیڑھی کی ذہنی کیفیت سمجھنے کیلئے آپ کو ان بچوں کی ذہنی کیفیت کو سمجھنا پڑےگا جن کو ماں کے بغیر دنیا ویران دکھائی دیتی ہے۔ وہ لوگ میری طرح بوڑھے تو ہو گئے ہیں، مگر بجھے بجھے سے رہتے ہیں۔ وہ ہو بہو آپ کی طرح ہیں، سوائے ایک فرق کے۔ آپ کے لئے چار موسم ہیں۔ ان کا ایک موسم ہے، پت جھڑ کا موسم۔