حکومت نہیں جائے گی؟ تباہی سامنے ہے!

October 19, 2021

تحریر: ابرار میر ۔۔۔لندن
سیاسی زندگی کے 40برس میں حکومتوں کے اکھاڑ بچھاڑ دیکھتے اور سمجھتے ہوئے یہ بات ضرور کہہ سکتا ہوں کہ حکومت بھیجنا مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ حکومت لانے کیلئے کچھ پلاننگ کرنا پڑتی ہے اور جب ایک بے بس اور بیکار حکومت ہوتو اسے ہٹا کر نئی حکومت لانے کے لئے پلاننگ بھی آسانی سے ہوجاتی ہے۔ تازہ ترین کھیل کے سپر اوور پر تجزیئے پر تجزیےکئے جارہے ہیں اور کچھ سینئر تجزیہ نگار تو جلدی جلدی میں حقائق کو مسخ کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو آگاہی تو دور کی بات بلکہ اپنی کم علمی کا مظاہرہ بھی کررہے ہیں، مثلاً یہ کہا جارہا ہے کہ عمران خان کو عسکری قیادت فارغ بھی کرسکتی ہے یا وزیر اعظم اسمبلیاں توڑ کر ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، پھر یہ بھی کہ حسمس ادارے کے چیف کو ایک سال کیلئے کور کمانڈر بننا ہوگا تاکہ چیف آف آرمی اسٹاف بن سکیں، یہ کھیل اب خطرناک صورت اختیار کرچکا ہے ۔ اس غیرمعمولی تناؤ کی زمہ دار سلیکٹڈ حکومت اور سلیکٹڈ وزیراعظم کی انا ہے، ہم نے یہ تجزیہ کسی سے نہیں سنا کہ ایک طرف اگر ہماری پاک فوج ہے تو عمران خان نے بھی طالبان کو اپنی طاقت بنایا ہوا ہے، یہی وہ تباہی ہے کہ جس سے نمٹنے کیلئے دور کی سوچنی ہوگی وگرنہ تو یہ حکومت تاریخ کی نااہل ترین اور کمزور ترین حکومت ہے جسے فارغ کرنے کےلئے مقدمات کا انبار لگا ہوا ہے، طالبان کی حمایت والی بات پر ابھی تک کھل کر کسی نے تجزیہ تو نہیں کیا لیکن فوج کے اندر یہ بات ضرور پائی جاتی ہے کہ عمران خان نے اپنے دھڑن تختے کو بچانے کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا، ملک میں امن ہزاروں قربانیوں اور شہادتوں کے بعد آیا ہے جسے کسی صورت داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا،حیرت تو یہ بھی ہوتی ہے کہ کچھ تجزیہ نگار پھر سے کھل کر ن لیگ کی ترجمانی میں لگ گئے ہیں، لیکن یہ سوچنے سے محروم ہیں کہ ان کی پسندیدہ ن لیگ کو حکومت مل بھی گئی تو کیا حساس ادارے سے نبھا ہوجائے گا۔ ن لیگ کی قیادت نے 30 سال اسٹیبلشمنٹ کی جی حضوری کی اور اب اچانک سے مظلوم بن رہی ہے اور ن لیگ والے یہ خوب جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف ایک سازش کے تحت بھاگ گئے ورنہ بیماری تو ایک بہانہ تھی۔ ن لیگ والے اور پی ٹی آئی کو سپورٹ کرنے والے تجزیہ نگاروں اور صحافیوں کے خلاف فتوے دیتے تھے لیکن انہیں اپنے لئے سچ جھوٹ بولنے والے کیوں نہیں نظر آتے، ہماری رائے میں اگر آج اسٹیبلشمنٹ مولانا فضل الرحمان اور شہباز شریف کو اشارہ کرے تو وہ ووٹ کی عزت کو بھول جائیں گے اور فورا سے پہلے گیٹ نمبر چار کے باہر کھڑے ہوں گے۔ چوہدری نثار، شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید قائمقام وزیراعظم یا پھر ایک اور سلیکٹڈ بننے کیلئے تیار بیٹھے ہیں، عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آپشن کسی اور کا نہیں بلکہ عوام کا اپنا آپشن ہونا چاہئے تبھی یہ ملک نظریاتی اور حفاظتی طور پر مظبوط ہوگا ورنہ بھینس سے ہٹ کر کٹے کے نیچے بیٹھنے والی بات ہوگی۔