لب و لہجہ پر توجہ دیں

October 23, 2021

جمہوریت چاہے پارلیمانی ہو، صدارتی یاکسی اور نوعیت کی۔ اختلافِ رائے یا تنقید کو اس کا حسن اسی لئے قرار دیا گیا ہے کہ اس اظہار ِرائے کا حقیقی مقصد کسی بھی معاملے میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا، بعض غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا اور حقائق پر توجہ دلانا ہوتا ہے۔ اس میں نامناسب لب و لہجے کی گنجائش اس لئے نہیں نکلتی کہ حکومتی بنچوں پر بیٹھنے والے ارکان اور ان کے حامی ہوں یا اپوزیشن بنچوں کے ارکان اور ان کے حامی سب اپنے وطن کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں اور تنقید یا وضاحتوں کی صورت میں زیادہ بہتر فیصلوں تک پہنچنے میں ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں۔ وطن عزیز میں پچھلے چند عشروں سے بیانات کا لب و لہجہ کچھ ایسے بگاڑ کی طرف جاتا محسوس ہوا کہ ان میں ذاتی مخاصمت اور بغض کا پہلو نمایاں ہوا ہےجبکہ ہماری پارلیمانی تاریخ میں شائستہ اندازِ بیان کی ایسی ایسی مثالیں موجود ہیں جو بہت سے لوگوں کی یادداشت میں آج تک محفوظ ہیں۔ مثلاً ایک وقت میں نوابزادہ نصر اللہ خان اپوزیشن کے صدارتی امیدوار بنائے گئے تو انہوں نے قبل از انتخاب ٹیلیویژن خطاب میں اس وقت کی حکومت کے صدارتی امیدوار پر علامہ اقبال کے شعر کی صورت میں یوں چوٹ کی: سلطانیٔ جمہور کا آنا ہے زمانہ + جو نقش کہن’’تم کو نظر آئے مٹادو‘‘۔ اسی طرح صدر ایوب کے زمانے میں ان کے بھائی سردار بہادر خان نے جو اپوزیشن لیڈر تھے، یہ مصرعہ پڑھا ’’ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستان کیا ہوگا‘‘ اس وقت کے وزیر داخلہ نے اس کا جواب یوں دیا ’’جب شاخ پہ الو بیٹھے تھے گلشن میں بہاریں روتی تھیں+ اب شاخ پہ بلبل بیٹھے ہیں، انجام گلستان کیا ہوگا‘‘۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی جمہوری نظام کا لازمی حصہ ہیں انہیں اپنی تنقید اور جوابی وضاحتوں کو ذاتی مخاصمتوں کا رنگ دینے سے گریز کرنا چاہئے۔ بصورت دیگر ریاست کا جمہوری چہرہ متاثر ہوتا ہے۔