27 اکتوبر کشمیریوں کیلئے یوم سیاہ

October 27, 2021

تحریر:خواجہ محمد سلیمان۔۔۔برمنگھم
ہر سال 27اکتوبر کو کشمیری جہاں کہیں بھی ہوں وہ اس دن کو یوم سیاہ کے طور پرمناتے ہیں کیونکہ اس تاریخ کو1947میں انڈین آرمی کشمیر میں داخل ہوئی اور ریاست جموں وکشمیر کے بہت بڑے حصہ پر جبری قبضہ کیا انڈیا15اگست اورپاکستان 14اگست بطور آزاد ملک دنیا کے نقشہ پر نمودار ہو ئےاس سے پہلے یہ ایک ملک برٹش انڈیا کی صورت میں موجود تھا۔ انگریز نے تقریبا 200سال انڈیا پر حکومت کی اس سے پہلے یہاں مغلوں کا راج تھا جو مسلمان تھے وہ افغانستان سے آئے تھے جو کہ انڈیا کے پڑوس میں تھا لیکن انگریز 5ہزار میل دور سے آیا اور اس نے تھوڑے ہی عرصہ میں بر صغیر پر اپنی اجارہ داری قائم کرلی ان کی چمڑی سفید تھی اور وہ یورپین کہلاتے تھے۔ انگریزوں نے6 184کو ریاست جموں وکشمیر کو ہندو ڈوگرہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کیا گلاب سنگھ نے جب ریاست جموں وکشمیر انگریزوں سے خریدی اس وقت اس ریاست کی اکثریتی آبادی مسلمان تھی جن کی اپنی ایک تاریخ اور کلچر ہے جو باقی انڈیا سے مختلف ہے کشمیر کی ہندوآبادی دس فیصد تھی اور وہ بھی زیادہ تر جموں میں تھے گلاب سنگھ بھی جموں کا رہنے والا تھا اس اور اس کے خاندان نے سو سال تک ریاست جموں وکشمیر پر حکومت کی یہ سوسالہ غلامی کا دور مسلمانوں کے لئے بدترین تھا ان کے حقوق برائے نام تھے معیشت ساری دس فیصد ہندووں کے ہاتھ میں تھی جب کبھی مسلمان اپنے حقوق کے لئے مانگ کرتے تو ان کے ساتھ بدترین سلوک کیا جاتا۔ گلاب سنگھ کے خاندان نے ریاست کو اپنی ملکیت سمجھا ہوا تھا وہ اور اس کے حواری عیش عشرت کی زندگی بسر کرتے تھے اور مسلمانوں کی آبادی کسمپرستی کی حالت میں تھی کئی بار مسلمانوں نے گلاب سنگھ کے خاندان کی حکومت کے خلاف بغاوت کی لیکن اس راج کو انڈیا کے مختلف ہندو راجوں اور انگریز کی پشت پنائی حاصل تھی جب کہ مسلم آبادی اکیلی تھی پھرقیام پاکستان کی تحریک چلی اس نے کشمیری مسلمانوں کو حوصلہ دیا اور ریاست کے مختلف علاقوں میں گلاب سنگھ کے خاندانی حکمرانی کو چیلنج کیا گیا ۔حکمرانوں نے تاریخ سے کبھی سبق نہیں سیکھا اور طاقت کےبل بوتے پر اس کو کچلنے کی کوشش کی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر جگہ مسلمانوں کے دل میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی اب اس بات کا انتظار کیا جانے لگا کہ جب انگریز برصغیر سے جائے گا تو اس حکومت کے خلاف بغاوت کی جائے گی اور پھر یہی ہوا کہ دوسری جنگ عظیم میں انگریزوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ برصغیرمیں اپنا اقتدار ختم کریں گے مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ علیحدہ وطن حاصل کریں گے۔ اسی سے تحریک پاکستان نے جنم لیا کشمیری مسلمانوں کی اکثریت نئے پاکستان میں شامل ہونے کے لئے بیتاب تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس تحریک کے روح رواں قائد اعظم محمد علی جناح کو کئی بار سرینگر بلوایا لیکن انڈیا نے انگریز سے مل کر ایسی چال چلی کہ اس نے کشمیر کے بہت بڑے حصہ پر جبری قبضہ کر لیا اور بھارت کے لیڈروں نے نہ صرف کشمیریوں سے کئے گے وعدوں سے انحراف کیا بلکہ پنڈت نہرو سے لیکر نریندر موودی تک ہر لیڈر نے دنیا کے سامنے جھوٹ بول کر کشمیر پر اپنا قبضہ جاری رکھا۔ اقوام متحدہ جس کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ کشمیر میں رائے شماری کرائے اس نے مصلحتوں کے تحت ایسا نہیں کیا اس لئے کہ یہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور اقوام متحدہ پر جن کی اجارہ داری ہے وہ اسلام اور اس کے ماننے والوں سے پرانا بغض رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ فلسطین پر اقوام متحدہ میں کئی قرار دادیں پا س ہو چکی ہیں لیکن اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کومشرق وسطیٰ میں قائم اسی لیا کیا گیا کہ عرب مسلمانوں کو کنٹرول کیا جائے اور ان کے وسائل یعنی تیل تک رسائی حاصل کی جائے اور ابتک ان ملکوں میں کرپٹ حکمرانوں کی پشت پنا ہی کی جا رہی ہے اور آج صورت حال یہ ہے کہ یہ عرب حکمران اسرائیل سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کو ڈھانے کے منصوبے بنا رہا ہے اور یہ حکمران اپنا اقتدار بچانے کی خاطر چوں نہیں کر رہے ہیں ۔اس سال کشمیر ی یوم سیاہ اس حالت میں منا رہے ہیں کہ 2019 میں نریندر موودی نے آرٹیکل370 منسوخ کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرکے مقبوضہ کشمیر کو اپنے اندر ضم کرنے کی کوشش کی جو کہ بین الاقوامی قانون کی سخت خلاف ورزی ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی نفی ہے لیکن اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی احتجاج بلند نہیں ہوا بھارت جو نئی پالیسی مقبوضہ کشمیر میں اپنائے ہوئے ہے یہ شملہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے کشمیری تو دنیا بھر میں اس اقدام پر سراپا احتجاج بنے ہیں مقبوضہ کشمیر میں جو مزاحمت ہے اس کو کچلنے کے لئے وہاں پر بھارت اپنی افواج کی تعداد بڑھا کر دس لاکھ کردی ہے اور روزانہ نوجوانوں کی شہید کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان جوکشمیریوں کا وکیل اس سارے کھیل پر جو سرد مہری دکھا رہا ہے وہ تعجب خیز ہے پاکستانی حکمران کہنے کو تو کشمیر کو اپنی شہ رگ کہتے ہیں لیکن اس شہ رگ کو دشمن کے پنجے سے چھڑانے کے لئے جان کی بازی لگانے کے لئے تیار نہیں سال میں ایک تقریر وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے کشمیر کی حمایت میں ہو جاتی ہے اگر تقرریوں سے میدان فتح ہوتے تو ہم کب کے کشمیر آزاد کراچکے ہوتے کیونکہ ہر پاکستانی حکمران نے اپنی عوام اور کشمیریوں کو یہی کہا کہ ہم کشمیر آزاد کرا کے چھوڑیں گے بلکہ بعض نے تو یہ بھی کہا کہ ہماری سیا ست کامقصد ہی یہی ہے بعض نے کہا کہ ہم ہزار سال تک لڑیں گے لیکن آج ایسے معلوم ہو رہا ہے کہ حکمرانوں کی ہمت جواب دے چکی ہے لیکن پوری پا کستان قوم کو یہ علم ہونا چائے کہ کشمیر کی آزادی کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ بھارت وہ دشمن ہے جس نے پاکستان کو دو لخت کیا اوروہ پورے پاکستان کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے اب جاگنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر ی پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑرہے ہیں وہ اپنے نوجوان بیٹوںکی قربانیاں دے رہے ہیں لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں سے پاکستان بنا تھاحکمران طبقہ جس عیش عشرت میں مبتلا ہے ان سے خیر کی توقع رکھنا وقت کا ضیاع ہے پاکستانی عوام کو چا ہئے کہ کوئی ایسی حکومت منتخب کریں جن کے پاس کشمیر کو آزاد کرانے کا کوئی پروگرام ہواور وہ عملی جدوجہد کرنے کے لئے تیا رہو۔انڈیا کے لیڈروں نے جھوٹ بول کر اپنے عوام میں یہ بات پھیلا دی ہے کہ کشمیربھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور ہمیں اس کو اپنے ساتھ رکھنے کے لئے ہر قربانی دینی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے اپنے عوام کو کشمیر کی آزادی کے لئے اس طرح تیا ر نہیں کیا جس کی ضرورت تھی۔ آزاد کشمیر کو دیکھ لیں یہ آزادی کا بیس کیمپ ہے لیکن یہاں کی لیڈر شپ مظفر آباد کی کرسی حاصل کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچتی۔ پہلے الحاق پا کستان کے نا م پر اقتدار لیتے تھے اب صوبے بنانے کی حمایت میں کرسی مل رہی ہے کل ہوسکتا کشمیر کی تقسیم پر اقتدار آفر ہو اب جس قوم کے لیڈر اقتدار پر سب کچھ فروخت کرنے کے لئے تیار ہوں ان کو آزدی نصیب نہیں ہوتی ۔مقبوضہ کشمیر کی تاریخ ہمارے سامنے ہے شیخ عبداللہ نے اقتدار کی لالچ میں کشمیر کو بھارت کی غلامی میں پھنسا دیا جس کا خمیازہ کشمیری قوم بھگت رہی ہے اب وقت ہے کہ ہم سید علی گیلانی شہید جیسے لیڈروں کو آگے لائیں جو کسی قسم کی سودا بازی نہ کریں اور جب تک ہمیں اپنے مستقبل کے فیصلے کا حق نہیں ملتا ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔