مہنگائی کا آشوب

October 28, 2021

ایک طرف کشمیر میں نوجوانوں کی خود کشیاں بڑھ رہی ہیں۔ دوسری طرف افغانستان میں عورتوں کی تعلیم اور نوکری سے پابندیاں ہٹانے کے مطالبے زور پکڑ رہے ہیں۔ جبکہ شام میں دولتِ اسلامیہ کے گڑھ رقہ میں، شہر کو دوبارہ بسانے اور تہذیبی سرگرمیاں تیز کرنے کے لئے ہر نسل کے لوگوں نے تعمیر میں شریک ہونے کی عملی کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ مثال، طالبان اگر خواتین کو معاشرت اور زندگی میں باقاعدہ عملی طور پر شامل کریں تو ساری قومیں ان کو تسلیم بھی کریں۔ کمال یہ ہے کہ روس اور چین کے علاوہ کئی ایک غیراسلامی ممالک میں بھی ہو آئے ہر جگہ یہ زور دیا گیا کہ خواتین کو دفتروں، فیکٹریوں، کالجوں اور اسکولوں میں کام کرنے دو۔ بہت سی ڈاکٹریٹ کی ہوئی خواتین، کوشش کرکے افغانستان سے باہر چلی گئی ہیں۔ جتنے فنکار اور مصور تھے، ان میں سے بیشتر روٹی کی تلاش میں، ملکوں ملکوں سر چھپانے کو نکل گئے ہیں۔ افغانستان فنکاروں سے خالی ملک بنتا جارہا ہے۔

مجھے یاد آتا ہے کہ کابل میں فریدہ خانم اور اقبال بانو کو شاہی جشن کے موقع پر بالخصوص بلوایا جاتا تھا۔ حافظ، رومی اور اقبال کی فارسی غزلیں منتخب کی جاتیں۔ صوفی تبسم کی نگرانی میں، باقاعدہ ریہرسل ہوتی، تلفظ ٹھیک کئے جاتے اور وہ فنکار انعامات سے لدی پھندی واپس آتی تھیں۔ اب تو وہاں سرسانگا کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ وہ اکیلی بیٹھی سگریٹ پھونکتی رہتی ہے۔ یہ اس کی عادت جوانی سے ہے اب ہم لوگوں نے کہا ’’بہت عمر ہو گئی۔ چھوڑ دو‘‘۔ ہنس کے کہنے لگی، یہ نشہ ہی تو مجھے زندہ رکھے ہوئے ہے۔ گانے کو تو اب کوئی بلاتا نہیں۔ البتہ پاکستان میں لوگ میلہ سلامت رہے۔ وہاں جاتی ہوں۔ جی بھر کے گاتی ہوں۔

پاکستان میں مہنگائی کا رولا اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب تو سیاسی جماعتیں خوفناک خواب دیکھتے دیکھتے انگڑائی لے کر اللہ اکبر کہتی اٹھ کھڑی ہوئی ہیں مگر موجودہ حکومت نے ایک اور فتنہ کھڑا کر دیا ہے۔ اب غریبوں کو سستا پیٹرول اور دیگر اشیا فراہم کریں گے۔ اب کون بتائے گا کہ چار بچے موٹر سائیکل پر مع بیوی کے بٹھائے غریب ہے کہ وہ لڑکے جو سڑکوں پر موٹر سائیکلوں کی ون ویلنگ کرتے رہتے ہیں جس چنگ چی پر دو کے بجائے چھ عورتیں بیٹھی ہوں وہ عورتیں زیادہ غریب ہیں کہ چنگ چی والا جو عورتوں سے اب دو روپے کی جگہ 4روپے مانگ رہا ہے۔ شہر شہر لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔

12روپے کی روٹی کل ہی سے پندرہ روپے کی ہو گئی ہے۔ تیل کھانے پکانے والا، پورے سو روپے لیٹر مہنگا ہو گیا ہے۔ پیٹرول و دیگر اشیا تو عیاشی کے زمرے میں آتے ہیں۔ وہ تو امیر لوگ لیں گے کہ اب تو گیس بھی نہیں مل رہی ہے۔ سیاست دان، آئے روز ملاقات میں کھانا کھلاتے ہیں۔ وہ کوئی سادہ کھانا نہیں ہوتا۔ انہیں اس عیاشی اور بےپناہ اخراجات پر شرم نہیں آتی۔ حکومت کے کارنامے بھی دیکھیں جس دن سے کورونا کی پابندیاں کم کی گئی ہیں۔ ساتھ یہ اعلان بھی تھا کہ لوگ شادی پر ایک ہزار لوگ بلا سکتے ہیں۔ یہاں پابندی کیوں نہیں لگ سکتی تھی۔ ویسے بھی ساری پارٹیاں ایک دوسرے کو گالیاں تو دے رہی ہیں۔ روٹی، کپڑا اور مکان کی دعویدار بھی ہیں مگر کوئی لائحہ عمل بھی پیش کریں کہ لہسن یا ادرک 4سو روپے کیوں بک رہا ہے۔ کیا اس کے بغیر سالن پک نہیں سکتا۔ ایک زمانے میں ٹماٹر 600روپے کلو ہو گئے تھے۔ لوگوں نے دہی اور میتھی دانہ، ٹماٹر کی جگہ استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ خود بخود قیمتیں نیچے آگئی تھیں۔ آج بھی غریب سل پر مرچ پیس کر اسی پہ روٹی لگا لگا کر کھا کر، شکر ادا کرتا ہے۔ ہمارے اسٹیٹ بینک کے گورنر، بار بار بتا رہے ہیں کہ ڈالر کی قیمت ابھی اور بڑھے گی۔ ہمارے خزانے کے سربراہ بھی قیمتوں کو بڑھنے کا سبب، اشیائے خورونوش کا بےتحاشہ استعمال گردان رہے ہیں۔ ہمارے ایک وزیر صاحب جو بوتل میں شہد لئے جارہے تھے، انہوں نے کہا ہے کہ لوگ اگر 9فیصد اشیائے خوردنی استعمال کم کریں تو مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے، جبکہ ورلڈ بینک زور دے رہا ہے کہ بچوں کو پاکستان میں پوری خوراک نہیں مل رہی ہے۔ اس لئے تھر اور دیگر علاقوں میں کمزور بچے جلدی مر جاتے ہیں مگر مجھے یہ سب نہیں لکھنا چاہئے کہ دیکھا عاصمہ شیرازی کے اوپر کتنے بھونکنے والے سامنے آگئے ہیں۔ اس نے تو صرف حکومت کی پرفارمنس کے بارے میں لکھا تھا۔ ویسے مریم کو چڑیل لکھنے والوں کو بھی شرم نہیں آئی کہ ان کے گھروں میں بھی مائیں بیٹیاں ہیں۔ زبان سب کی پھسل جاتی ہے اور سبھی گھرانے جو حکومت میں آتے رہے ہیں۔ غلام محمد سے لے کر موجود سرکار تک سب کو وظیفوں اور تعویزوں پر اعتماد رہتا ہے۔ ہمارے اشفاق احمد تو بابا پہ بہت اعتماد رکھتے تھے۔ وہ تو پولیس اور فوجی افسروں کو لیکچر دینے سرکاری گاڑی میں جاتے تھے۔ انتہا اب تو یہ ہو گئی ہے کہ فوجی معاملات بھی استخارے کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لطف کی بات یہ ہے کہ سارے سیاست دانوں کے روحانی پیر باقاعدہ ہوتے تھے۔ بینظیر ہو کہ نواز شریف اور سب سے بڑھ کر زرداری صاحب بھی ان پر اعتقاد رکھتے تھے۔ ویسے تو سندھ میں سارے سیدوں کو پیر جانا جاتا ہے۔ یہ سب پیر وظیفے بتاتے ہیں مگر کوئی بھی تو مہنگائی کا حل یا وظیفہ نہیں بتاتا۔

البتہ مہنگائی کرنے والوں کے ہاتھ میں تسبیح ہوتی ہے جس زمانے میں حنیف رامے ایوب خان کے تعلقات عامہ کے افسر تھے تو اپنی کرسی کی پشت پر پیر صاحب دیول شریف کی ایسی تصویر لگاتے کہ ایوب خاص نعوذ باللہ عرش سے رنگے ہاتھوں میں اتر رہے ہیں۔ یہ سب دیکھا ہوا ہے۔ پہلے زمانوں میں بھی اولیائے کرام اس زمانے کے سیاست دانوں کو نصیحت کرتے تھے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)