کیا اپوزیشن عوام کو بے وقوف سمجھتی ہے؟

October 28, 2021

پاکستان کے عوام سے زیادہ مظلوم شاید اس خطے میں تو دور کی بات، فلسطین و شام میں بھی کوئی نہ ہوگا۔ پاکستانی عوام آخر کس پر بھروسہ کرے؟ کیوں کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں بشمول پی ایم ایل (ن)، فیصلہ ساز قوتوں کے اشارے پر ناچنے کے لئے تیار ہیں، مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ ڈالی ہے۔ آئے روز نہ تھمنے والی مہنگائی پر پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور چند دوسری جماعتوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے شروع کر رکھے ہیں، جہاں مظاہرین بجلی کے بلوں اور پیٹرولیم مصنوعات کے خلاف پلے کارڈز اُٹھا کر حکومت کے خلاف سخت نعرے بازی کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ ووٹرز جنہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا، وہ بھی ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے پر افسوس کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔ گلی محلوں میں یہ بات عام ہے کہ وفاقی حکومت نے پٹرول کی قیمتوں کو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچانے کا ریکارڈ بھی اپنے نام کر لیا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں بجلی، گیس، آٹا اور چینی سمیت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بجائے بےتحاشہ اضافہ قابلِ تشویش ہے۔ حکومت میں شامل جماعتوں کی طرح حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھی عوام ہی کی نمائندہ ہیں، لہٰذا انہیں چاہئے کہ چند چھوٹے شہروں میں اپنی تیسرے اور چوتھے درجے کی قیادت سے احتجاج اور مظاہرے کرانے کی بجائے اپنی اول درجے کی قیادت کو سامنے لائیں اور مہنگائی اور بےروزگاری کے حوالے سے ملک گیر سطح پر عوامی جذبات کی ترجمانی کریں، صرف جلسے کرنے سے کام نہیں چلتا، اپوزیشن کا کام ہے پریشر گروپ کے طور پر کام کرنا لیکن اپوزیشن کی تمام جماعتیں چند ماہ بعد ایک جلسہ کرکے عوام کو بےوقوف بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کسی بھی حکومت پر عوام کی تنقید یا ان کی طرف سے احساس دلانے کے لئے کی گئی کوششوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور تحریک انصاف کی حکومت بھی اس سلسلے میں کوئی الگ مثال قائم نہیں کر سکی۔ اسی لئے بجلی اور پٹرولیم جیسی بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 2018سے اب تک اتنا اضافہ ہو چکا ہے کہ ایک عام آدمی کے گھر کا بجٹ تین سال بعد دو گنا سے بھی زائد ہو چکا ہے لیکن آمدنی اپنی جگہ ہی کھڑی ہے۔ اس صورتحال میں عوام جن مسائل کا شکار ہیںان کا احساس حکمران طبقے کو اس لئے نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ جس طرح کے ماحول میں رہتے ہیں وہاں وہ مسائل ہیں ہی نہیں جن کا سامنا عام آدمی کو کرنا پڑتا ہے۔ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اگر آج کی قیمت کا دو یا تین گنا بھی ہو جائیں تو حکمران طبقے کو اس سے ذرا سا بھی فرق نہیں پڑے گا۔ یہاں حکمران طبقے سے مراد صرف حکمران جماعت نہیں بلکہ حزبِ اختلاف کی اکثریت بھی لی جانی چاہئے کیونکہ اگر حزبِ اختلاف کو عوام کے مسائل کا احساس ہوتا تو وہ ان مسائل پر کھل کر بات کرتی۔

عمران خان کے وزیر اور مشیر ایسے ایسے بیانات دے رہیں کہ جن کا سر ہے نہ پیر۔ وزیروں مشیروں کے ایسے بیانات عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ حکومتی وزراء یہ تو بتاتے نہیں تھکتے ہیں کہ ہمارے ہاں فلاں فلاں شے کی قیمت دوسرے ممالک کی نسبت اتنی کم ہے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ دوسرے ممالک میں ایک عام آدمی کی یومیہ اجرت کتنی ہے اور لوگوں کی قوتِ خرید پاکستانی عوام کی نسبت کہاں کھڑی ہے۔ ایسے بیانات سے یہ لوگ خود کو تو مطمئن کر سکتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ عوام پر ایسے بیانات کا کوئی مثبت اثر نہیں ہوتا بلکہ ان لوگوں کے خلاف عوامی جذبات مزید بھڑک اٹھتے ہیں ۔ 2018تک حکمران جماعت میں شامل بیشتر لوگ عوام کو یہی بتاتے رہے کہ عالمی منڈی میں فلاں شے کی قیمت اتنی ہے تو اسے پاکستان میں اتنے کی ہونا چاہئے۔ اب جب عوام ان سے انہی کی باتوں کے حوالے دے کر سوال کرتے ہیں تو جواب میں انہیں ایسے بیانات سننے کو ملتے ہیں جن سے لگتا ہے کہ حکمرانوں کو عوام کے مسائل کا واقعی اندازہ نہیں ہے۔ان باتوں کو ایک طرف رکھ کر سوچنے کی یہ بات ہے کہ اپوزیشن ایک پیج پر کیوں نہیں؟ یہ مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کر کے اسلام آباد کا رخ کیوں نہیں کر رہی؟ کیا وجہ ہے کہ اسمبلیوں سے استعفوں کا آپشن بھی استعمال نہیں ہورہا؟ کیا وجہ ہے کہ گندم، جس کا صوبائی حکومتوں سے تعلق ہے، وہ بھی روز بروز مہنگی ہوتی جارہی ہے؟ کیا اپوزیشن جماعتیں اگلے انتخابات تک اسی طرح کا ڈھونگ رچاتی رہیں گی؟ مگر اب تو شاید لانگ مارچ کا وقت جا چکا ہے کیوں کہ 2سال بعد انتخابات ہیں اور اگر اب کوئی لانگ مارچ یا تحریک شروع ہوتی بھی ہے تو وہ صرف اگلے انتخابات جیتنے کے لئے ہوگی اور عوام کو ایسی کھوکھلی تحریکوں سے بےوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔