بچوں کے بدلتے مزاج

November 05, 2021

زہرہ فاطمہ

بچے جب عمر کی دوسری دہائی میں پہنچتے ہیں تو بچوں کی رویوں میں تھوڑی بہت تبدیلی ضروری آتی ہے۔ یہ تبدیلی عموماً چودہ یا پندرہ برس کی عمر میں آتی ہے۔ اس عمر میں بچوں کی تربیت اور پرورش خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ بچے والدین سے دور رہنے لگتےاور دوستوں میں ان کا زیادہ دل لگتا ہے ۔گیارہ ،بارہ برس تک بچےہر بات والدین سے کرتے ہیں ۔اس وقت والدین ہی ان کی پہلی ترجیح ہوتے ہیں ۔

جوں جوں وقت گزرتا ہے ان کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں ۔ دوسری دہائی میں پہلی تر جیح دوست ہوتے ہیں ۔اس عمر میں بچے اپنی ہر بات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں ۔اگر گھر کا ماحول کہنے کے لئے ساز گار ہو۔ بچے کوکسی خوف کے بغیر اپنی باتیں کہنے کی فضا میسر ہو تو وہ گھر یا والدین سے دور نہیں ہوگا۔عمر کے اس حصے میں نت نئی تبدیلیوں سے دو چار ہونے والے بچے اپنے مسائل کے حل کے لئے رہنمائی چاہتے ہیں۔وہ اپنے مسائل پر تبادلہ خیال کے طلب گار ہوتے ہیں۔ اگر انہیں والدین کا مثبت رویہ ملے تو وہ انہی کو دوست بنالیں گے۔

اس عمر میں بچے والدین سے دور بھاگتے ہیں ،کیوں کہ والدین اس عمر میں روک ٹوک اور نصیحت زیادہ کرتے ہیں جو عموماً بچے پسند نہیں کرتے ۔ایسے میں بچوں کو ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے ۔جب بچہ کوئی حماقت کر بیٹھے تو اس پر نصیحتوں کی بو چھار کرنا مناسب نہیں ۔بچے کو اپنی غلطی کا اندازہ کرنے کا موقع دیں ،تا کہ وہ خود سےکسی نتیجے پر پہنچ سکے ۔نو عمری میں بچوں کی نگرانی ضروری ہے، مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انہیں اس نگرانی کا احساس نہ ہو ۔گھر کا ماحول ایسا ہونا چاہیے کہ پرائیویسی کا احساس بھی رہے ۔گھر کا ایک حصہ بچوں کے لیے الگ کردیں جہاں وہ کھیل سکیں ،دوستوں کے ساتھ وقت گزارسکیں ۔

اپنے اور بچے کے درمیان رابطہ قائم کرنے کے لیے ایسا انداز اپنائیں جو بچوں کو ان کی باتیں سننے پر آمادہ کرے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو پر اعتماد اور مضبوط بنانے کے لیے انہیں بنیادی اور اہم معلومات فراہم کریں ۔بہت سارے معاملا ت میں بچوں کو ہمدردانہ رویوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔عمر کے اس حصے میں بچے کو ایک سمجھدار اور ذہین فرد کی رہنمائی درکار ہوتی ہے۔ان کے قریب ایسا فرد ضروری ہے جو وقت پڑنے پر ان کی مدد کر سکے۔ ماں یا باپ یہ کردار زیادہ اچھی طرح ادا کر سکتے ہیں۔ اس دور میں بچے بہت سی تبدیلیوں سے گزر کر بہت کچھ سیکھ کر ایک نئی شخصیت میں ڈھلتے ہیں۔