چینی مزید مہنگی: شوگر مافیا کو لگام کون ڈالے گا؟

November 11, 2021

پنجاب میں چینی کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں، جس کا تمام منافع مل مالکان اور ڈیلروں کو پہنچ رہا ہے، صوبہ میں گنا کی فصل تیار ہو چکی ہے ، گنے کے کاشتکارملیں کھلنے کا انتظا ر کر رہے ہیں لیکن مل مالکان کی ہٹ دھرمی ہے کہ کرشنگ سیزن میں بے جا تاخیر کر رہے ہیںجس وجہ سے چینی کی قیمتوں میں استحکام ممکن نہیں ہو گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ملیں چینی کا تمام سٹاک مہنگے داموں فروخت کرنے کے بعد کرشنگ سیزن کا ارادہ رکھتی ہیں جس کا تمام فائدہ مل مالکان کو اور نقصان چینی کے صارفین اور کسانوں کو پہنچے گا۔ صوبائی حکومت چینی کی قیمتوں کو کنٹرول اور سرکاری قیمتوں پر فروخت کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔

چینی کی قیمتوں کا بحران اس وقت شروع ہوا جب پنجاب حکومت نے رواں سال مارچ میں چینی کے ایکس مل ریٹ 80روپے کلو اور پرچون ریٹ 85روپے مقرر کئے، مل مالکان نے سرکاری نرخ ماننے سے انکار کر دیاچینی کے ڈیلروں کی پکڑ دھکڑ اور ملوں کے سٹاک پر قبضے ہوئے تو مالکان عدالت چلے گئے ، بیرون عدالت مل مالکان اور حکومت میں خاموش مفاہمت ہونے کے بعد رمضان بازاروں میں حکومت کو ایک لاکھ55ہزار ٹن چینی فراہم کر دی گئی جس کے بعد حکومت چینی کے سرکاری نرخوں پر عمل درآمد کے معاملے پر خاموش ہو گئی۔

رمضان المبار ک ختم ہونے کے بعد مل مالکان دوبارہ من مانی قیمتوں پر چینی فروخت کرنے لگے، جب چینی کی قیمت 85روپے مقرر ہوئی تو پرچون میں 100کلو فروخت ہو رہی تھی، حکومت نے گزشتہ ماہ اکتوبر میں مل مالکان کے سامنے دوسری بار گھٹنے ٹیک دئیے جب چینی کے سرکاری نرخ بڑھا کر ایکس مل ریٹ 84,75 روپے کلو اور پرچون ریٹ 89.75 روپے کلوکر دئیے، اس مرتبہ بھی مل مالکان نے سرکاری حکم ماننے سے انکار کر دیا، سرکاری نرخوں کے بعد چینی کی قیمت بڑھ کر115روپے کلو پہنچ گئی۔

ستم ظریفی ہے کہ حکومت جب سرکاری نرخ مقرر کرتی مل مالکان نرخوں میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں جس سے وزیر اعلی عثمان بزدار کی حکومت کی جگ ہنسائی ہو ئی، سرکاری انتظامیہ نے پرانی روش اختیار کرتے ہوئے اس بار دوبارہ ملوں کے گودام سیل کر دئیے، مالکان کی پکڑ دھکڑ اور ڈیلروں کے خلاف مقدمات اور چینی کے سٹاک قبضے میں لئے ، ان اقدامات سے چینی کی قیمت کم ہونے کی بجائے تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں اور چینی کی سو کلو بوری کے نرخ 15ہزار روپے تک پہنچ گئے اور پرچون ریٹ 160روپے کلو ہو گئے۔ حکومت اور شوگر مل مافیا کے درمیان بلی چوہے کا کھیل ایک سال سے جاری ہے جس کا تمام نقصان غریب صارفین کو ہوا ۔

حکومت نے چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے یکم نومبر کو ملوں کو کو کرشنگ سیزن شروع کرنے اور ملوں کو چلانے کے احکامات دئیے جسے مل مالکان نے ماننے سے انکار کر دیا ، حکومت نے کرشنگ سیزن میں توسیع کردی اور 10نومبر کو کرشنگ سیزن شروع کرنے کا سرکاری نوٹیفکیشن جاری کردیا لیکن مل مالکان بدستور ہٹ دھرمی پر قائم ہیں اور حیلے بہانے کرنے میں مصروف ہیں، خبر ہے کہ پنجاب میں شوگر ملیں 30نومبر کو چلیں گی ، جس کا مطلب ہے کہ شوگر ملوں کے صرف بوائلر چلیں گے لیکن گنے کی خریداری دسمبر میں ہو گی۔مل مالکان کے اس اقدام سے کسانوں کو سب سے بڑا نقصان ہو گا کہ گندم کی فصل کاشت کرنے سے محروم ہو جائیں گے اور گندم کا پیدا واری ہدف پورا نہیں ہو گا۔

چینی مہنگی ہونے کی تمام ذمہ داری پنجاب حکومت پر عائد ہوتی ہے جس نے دو مرتبہ سرکاری نرخنامے تو جار ی کر دئیے لیکن سرکاری نرخوں پر چینی کی فراہمی میں ناکام ہو گئی، موجود ہ حکومت نے تین سال قبل اقتدار سنبھالا تو چینی کے نرخ 53روپے کلو تھے جو تین برسوں میں بڑھ کر160روپے کلو ہو چکے ہیں، موجودہ صورتحال یہ ہے کہ بازاروں میں چینی غائب ہے، ڈیلروں کے گودام خالی ہیں، ملوں کے ذخائر ختم ہیں، چینی کو زمین کھاگئی یا آسمان نگل گیا؟

کچھ سمجھ نہیں آتالیکن حیران کن امر ہے کہ 160روپے کلو میں چینی وافر دستیاب ہے ۔ حکومت نے کسانوں کو مطمین کرنے کے لئے آئندہ کرشنگ سیزن کے دوران گنے کی امدادی قیمت میں 25روپے اضافہ کر کے 225روپے من مقرر کر دی ہے ، رواں کرشنگ سیزن کے دوران کسانوں کو دو طرح مالی نقصانات ہو گے پہلا کرشنگ سیزن میں تاخیر کی وجہ سے گنے کے وزن میں کمی ہو گی جس سے کسانوں کو مالی نقصان اور مل مالکان کو مالی فائدہ ہو گا، دوسرا حکومت نے گنے کی امدادی قیمت میں مناسب اضافہ نہیں کیا۔

حیرت ہے کہ موجودہ حکومت کے تین سالہ اقتدار میں چینی کہ قیمتوں میں 200فیصد سے زائد اضافہ ہوا لیکن گنے کی امدادی قیمت میں صرف 45روپے اضافہ کیا گیا۔ موجود ہ حکومت تین سال پہلے برسر اقتدار آئی تو گنے کی امدادی قیمت 180روپے من تھی،گزشتہ سال گنے کی قیمت 20 روپےاضافے کے بعد 200 روپے من کی گئی اور رواں سال 25روپے اضافے کے بعد 225روپے من کرنے کا اعلان کر دیا گیا، گنے کی امدادی قیمت نہ تو چینی کی قیمتوں سے مطابقت رکھتی ہے اور نہ ہی اس سے پیدا واری اخراجات پورے ہوتے ہیں۔

کرشنگ سیزن میں تاخیر، ملوں کی بندش اور امدادی قیمت میں نامناسب اضافے کی وجہ سے سوشل میڈیا مہم کے ذریعے کسانوں کو ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ ملوں کو گنا نہ بیچیں بلکہ گڑ بنائیں، سوشل میڈیا کی مہم بے بنیاد ہے، اول تو گڑ بنانا مشکل کام ہے دوسرا گڑ کی خریدو فروخت کون کرے گا؟

تیسرا گڑ بنانے کے عمل میں زرعی معیشت کو بھاری نقصان کا اندیشہ ہے ۔ کسان اتحاد کے چیئر مین خالد محمود کھوکھر کا کہنا ہے کہ چینی کے نرخ 160 کلو پہنچ چکے ہیں، گنے کی ریکوری12 فیصد ہو تو ایک من گنے سے چینی کی اوسط پیداوار پانچ کلو ہوتی ہے ، کسانوں کا مطالبہ ہے کہ گنے کی امدادی قیمت 300روپے من کی جائے ورنہ ملوں کو گنا سپلائی نہیں کریں گے ۔