بڑا بحران جنم لے رہا ہے

November 18, 2021

مشرق وسطیٰ یورپ کے دو پڑوسی ممالک بیلا روس او پولینڈ کے مابین غیر قانونی تارکین وطن کے مسئلے پر شدید کشیدگی پیدا ہو گئی ہے جو بتدریج بڑھ رہی ہے ایسے میں برطانیہ نے اپنا ایک فوجی دستہ فوری طور پر پولینڈ کے فوجیوں کی مدد کیلئے واسا روانہ کر دیا ہے۔ دوسری جانب روسی فوجیوں نے بیلا روس اور پولینڈ کی سرحدوں کے قریب فوجی مشقیں شروع کر دی ہیں۔

اس طرح یورپی ممالک میں شدید تشویش پائی جاتی ہے،ان کی سرحدوں کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ چند سال قبل جب شمالی افریقہ کے عرب ممالک اور بعض افریقی ممالک مثلاً شام، عراق، لیبیا، سوڈان، صومالیہ، ایتھوپیا سمیت بھارت اور پاکستان کے غیر قانونی تارکین وطن نے یورپی ممالک کی سرحدوں پر یلغار کر دی تھی تب ترکی اور یونان نے اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں۔

بحیرہ روم کے ساحلوں پر واقع زیادہ تر ممالک کے تارکین وطن نے اپنے ملکوں میں جاری خانہ جنگی افراتفری لوٹ مار اور ناانصافی سے تنگ آکر اپنے اہل و عیال سمیت لالچی ایجنٹوں اور انسانی اسمگلرز کے ہاتھوں میں پھنس کر ربر کی کشتیوں میں سوار بدترین موسم کے تھپیڑے سہتے ہوئے کچھ یورپ کے ساحلوں تک پہنچے تھے اور بہت سے سمندر کی بے رحم لہروں کے لقمہ اجل بن گئے تھے جو مرکھپ کر یورپی ممالک کے ساحلوں تک پہنچے وہاں ان کے لئے دروازے بند تھے۔

اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے شدید سردی اور بارشوں کے موسم میں ان کے لئے جو خیمہ بستی بسادی تھی وہ ناکافی تھی، سیکڑوں افراد جن میں مرد عورتیں اور بچے سب ہی شامل تھے کھلے آسمان تلے سانس لینے پر مجبور تھے۔ بھوک پیاس اور بیماری الگ شدید مسائل تھے۔ تب کچھ غیر قانونی تارکین وطن بیلا روس کی سرحد پر جمع ہوکر سانس لینے کی حد تک محو انتظار تھے کہ کوئی مسیحا آئےگا اور ان کو مصائب اور آلام کے پہاڑ سے نجات دلائے گا۔ وقت گزرتا رہا مگر مسیحانہ آیا نہ کوئی راہ سجھائی دی وہ ہزاروں غیر قانونی تارکین وطن بیلا روس کی سرحد پر حسرت ویاس کی تصویر بنے کسمپرسی کی حالت میں سانس لیتے رہے۔

بیلاروس کی سرحد پر تارکین وطن کا ہجوم، پولینڈ اور بیلاروس کی کشیدگی، یورپی سرحدیں غیرمحفوظ ہوگئیں

اب پولینڈ نے زبردست احتجاج کیا ہے کہ بیلا روس ان غیر قانونی تارکین وطن کو اس کی سرحدوں میں دھکیل رہا ہے۔ بیلا روس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تارکین وطن پولینڈ کی سرحد پار کر کے یورپی ممالک میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ جبکہ یورپی ممالک پہلے ہی سے ریڈ الرٹ ہیں وہ ایسی ہر کوشش کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ اس لئے روس نے فوجی مشقیں شروع کرا دیں۔ برطانیہ نے پولینڈ کی سرحد پر اپنا فوجی دستہ روانہ کر دیا۔

غیر قانونی تارکین وطن کی آتنی بڑی تعداد کا ہجرت کرنا ایک بڑا انسانی المیہ تھا جس کی شروعات مفاد پرست ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے ہوئی۔ عراق میں امریکہ کی بے جا مداخلت عراق کے حکمراں صدر صدام حسین کو نام نہاد کیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری کا بہانہ بنا کر عراق پر چڑھائی کردی۔ ملک خانہ جنگی کی آگ میں جلنے لگا، صدام حسین کو امریکہ نے عبرت کا نشان بنانے کا نعرہ لگا کر بیدردی سے قتل کر دیا، مگر یہ نہیں سوچا کہ صدر صدام حسین مغرب کو جتنا ناپسندیدہ ہو مگر اس خطے کے بہت سے طوفانوں کو روکے ہوئے ہے۔

صدام کی غیر موجودگی میں یہ طوفان سر اٹھائیں گے، جن کو قابو کرنا امریکہ کے بس کا روگ نہ تھا اور ایسا ہی ہوا۔ امریکہ کی کھلی جارحیت کو دیکھ کر علاقائی اور کچھ چھوٹی قوتوں نے اپنی کارروائیاں تیز کردیں۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران دونوں نے اپنے اپنے مسلک کی چھتری تلے پرو کس وار شروع کر دی جس کا سب سے بڑا میدان کارزار شام بن گیا۔

سال 2015 میں جب مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ممالک کی اکیسویں صدی کی نئی نسل نے جوان ہو کر جب عملی دنیا میں قدم رکھا تو اس کا بیروزگاری، افراتفری، ناانصافی، مہنگائی اور نفسا نفسی سے واسطہ پڑا۔ اس کے نتیجے میں نوجوانوں میں غم و غصہ اور منفی جذبات کا ابھرنا فطری بات تھی تو ایسا ہی ہوا۔ مصر، لیبیا، الجزائر، تیونس، مراکش، ،خلیجی ریاستوں کے مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف تحریکیں ابھرنے لگیں اور دیکھتے دیکھتے عرب ممالک کی تقریباً آبادی خاص کر نوجوان طبقہ سراپا احتجاج ہوگیا۔ مصرسےمراکش اور شام، متحدہ عرب امارات اس تحریک کےجس کو عرب اسپرنگ یا عرب بہارکا عنوان دیا گیا تھا، اثرات نمایاں ہوئے۔ جمود ٹوٹا، ہزاروں گرفتاریاں ہوئیں، سیکٹروں ہلاک اور زخمی ہوئے، اس سے زیادہ نقصان عوام کا ہوا۔

ہزاروں بے گھر ہوئے، عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔شام میں بمباری خانہ جنگی جس میں ایک طرف امریکہ ،روس، سعودی عرب فریق تھے، دوسری جانب شام کی شعیہ آبادی اور اس کی معاون دہشت گرد تنظیم حزب اللہ برسر پیکار تھی۔ لبیا کے کرنل قذافی کو نہایت بیدردی سے ہلاک کیا گیا۔ وہاں متحارب دھڑوں میں خون ریز جھڑپیں جاری رہیں۔ اس خطے میں زندگی کے بجائے موت کے سائے محورقص تھے،۔شہر کھنڈر بن چکے تھے۔ ساٹھ لاکھ شامی، بتیس لاکھ عراقی،دیگر پڑوسی ممالک کے متاثرہ بیس لاکھ سے زائد افراد بے گھر بے خانماں اور بے یارومددگار بھٹکنے پر مجبور ہوگئے، اس کے علاوہ ان بدنصیب افراد کا کیا کیا نقصان ہوا ،اس تفصیل کو ضبط تحریر میں لانا بہت مشکل ہے۔

سب سے بڑا لمیہ یہ کہ مرنے والے بھی مسلمان اور مارنے والے بھی مسلمان ان حالات میں اچھے لوگوں کے درمیان بدقماش لوگ بھی اپنا راستہ بنالیتے ہیں۔ہزاروں بے گھر بے خانماں لوگوں کو سبز باغ دکھا کرربر کی کشتیوں میں گنجائش سے دوگنے افراد کو بھرکر رات کی تاریکیوں میں بحیرہ روم کے سمندر میں ہچکولے کھاتے تھپیڑے برداشت کرتے کچھ وہیں دم توڑتےاور کچھ کشتی کے ڈوبنے سے ہلاک ہوئے جو قسمت سے بچ گے وہ ساحلوں تک پہنچے جہاں بارڈر پولیس نے انہیں گرفتار کرکے کھلے کیمپ میں قید کردیا۔ بیش تر خاندانوں کی بچیاں، لڑکیاں اغوا ہوگئیں۔

سب سے زیادہ شام کے عوام کو نقصان اٹھانا پڑا۔ اچھا خاصا منظم تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا۔ شہر کھنڈر بن گے ، زندگی دم توڑ گئی۔ بڑا المیہ یہ کہ ہر ایک کا دکھ دوسرے سے سوا، کس کے گلے لگ کے روئیں۔ ایسے میں ترکی کے سرحد پران بے خانماں لوگوں کااجتماع بڑھنے لگا، جس سے ترکی کی حکومت کے لئے خطرات بڑھنے لگے۔ عراق اور شام کے پہاڑی علاقوں میں برسوں سے آباد غریب کروآبادی بھی بے گھر ہوگئی، سب کچھ لٹ گیا، یہ بھی ترکی کی سرحد پر آنے لگے۔ ترکی کا بڑا جھگڑا ہمیشہ کردوں سے رہا اس کو خطرہ ہوا کہ شام عراق کےکرد باشندے ترک کردوں سے مل کر بغاوت نہ کردیں۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ یورپی استعمار پسند قوتیں مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ کردوں سے نفرت کرتی ہیں اور کردوں ہی سے ڈرتے بھی ہیں ماضی کی صلیبی جنگیں کردوں نے جیتی تھیں اور یروشلم کو صلاح الدین ایوبی کرو نے فتح کیا تھا۔ اس لئے برطانیہ جو نو آبادیات دور میں انتہائی خطرناک سازشیں کرتا رہا اور دنیا کو سب سے زیادہ دکھ اور مصائب میں ڈوبتا رہا، اس نے کرورریاست پر اس دور میں قبضہ کرکے ریاست کو چارحصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک حصہ ترکی کو، دوسراعراق کو، تیسرا شام کو اور چوتھا حصہ ایران کو دیدیا اور ان چاروں ملکوں نے بھی حسد،خوف اور نفرت کے ساتھ ان سے بدترین سلوک روارکھا، لہذا ترکی کو پریشانی ہوئی۔

مبصرین اوروقائع نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر کروریاست متحد رہتی تو یورپی استعمار پسند اس خطے میں قدم نہیں جماسکتے تھے۔کرو دلیر،مستقل مزاج، قدرے اکھڑ اور نہایت جفاکش قوم ہے۔ آرام پسند عیش وعشرت کے دلدادہ حکمران اور ان کے حواری اس لئے ان سے خائف رہتے ہیں اور شدید تعصب برتے ہیں جبکہ وہ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ فی الفور مسئلہ یہ ہے کہ بیلا روس اور پولینڈ کی سرحد پر ہزاروں غیر قانونی ،تارکین وطن کا ہجوم پندرہ ڈگری نقطہ انجماد سے نیچے کی سرد اور تندو تیز سردی میں اپنی حفاظت کیسے کرے گا۔ وہ بے یارو مددگار ہیں اس پر ستم یہ کہ فوجی ان کے سروں پر مسلط ہیں۔

واضح رہے 2015کی شدیدا تھل پتھل اور تارکین وطن کے جتھےکے جتھے یورپی ممالک کی سرحدوں کی طرف بڑھنے کی کوششیں کر رہے تھے، تب مشرقی یورپی ممالک نے اپنی سرحدوں پر کیمپ لگا کر انہیں سرچھپانے کا قدرے آسرا دیا تھا۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے تیس ہزار تارکین وطن کو سرکاری کاغذات جاری کر کے جرمنی میں پناہ دی تھی۔ اس پر دیگر یورپی ممالک نے برا منایا تھا اور انجیلا مرکل کے اس اقدام کی پذیرائی نہیں کی، مگر انجیلا مرکل واقعی آئرن لیڈی ہیں۔

انہوں نے انسان دوستی کے حوالے سے جوقدم اٹھایا تھا اس کا زور دار طریقے سے دفاع کرتی رہیں، اس کے بعد فوری کرسچین ڈیمو کریٹ پارٹیاں جن کا تعلق دائیں بازو کی رجعت پسند پارٹیوں اور دھڑوں سے تھا،انہوں نے رفتہ رفتہ افریقی عرب تارکین وطن کے خلاف آواز بلند کی اور اپنی اپنی حکومت پر زور دینا شروع کر دیا کہ تارکین وطن کو یورپی ممالک میں ہرگز پناہ نہ دی جائے۔ یورپ کے ہر ملک میں دائیں بازو کے قدامت پسند ٹولے مضبوط ہیں جو مذہب، نسل اور زبان کی تفریق پر تعصبات کو ہوا دیتے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ صدیوں بعد شدید مسائل اور آزادی کے نقصانات کے باوجود یورپی قومیں نسلی تعصب سے پوری طرح آزاد نہیں ہو سکیں۔ خاص طور پر گورا رنگ، کالا رنگ، ان کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ افریقی عرب ایشیائی تارکین وطن رنگ دار نسل کے ہیں۔ اور ان کی قطعی اکثریت مسلمان ہے۔ اس لئے یورپ کے قدامت پسند حلقے زیادہ شور مچا رہے ہیں۔

عموماً مشرقی یورپی ممالک میں نسلی، مذہبی اور سماجی تعصبات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے ممالک الگ الگ قدیم قبائل پر مشتمل ہیں۔ ہر ایک کی زبان، نسل، معاشرت الگ الگ ہے، اس پر تاحال بہت نازاں ہیں۔ جبکہ اسکینڈے نیوین ممالک سوئیڈن، ناروے، ڈنمارک اور فن لینڈ تعلیم یافتہ ،مہذب اور ترقی یافتہ ہیں،۔ اس کے علاوہ بڑے اہم یورپی ممالک برطانیہ، جرمنی ،بیلجیم ،ہالینڈ اور اٹلی ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔

مشرقی یورپی لگ بھگ ستر اسی برسوں سے سابق سوویت یونین کے جنگلات میں پھنسے ہوئے تھے اس کے بعد انہیں آزادی سے سانس لینے کا موقع میسر آیا مگر ان کی ماضی کی کج روی، رنجشیں تعصبات بھی ان کے ساتھ ہیں۔

تارکین وطن کا سلسلہ دوسری عالمی جنگ کے بعد بہت بڑھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ دو عالمی جنگوں میں یورپی ممالک کی افرادی قوت کم ہو گئی،پہلے جرمنی، پھر برطانیہ، اٹلی، آسٹریا اور بیلجیم وغیرہ نے قانونی طور پر ورک پرمٹ پر عرب، افریقی اورجنوبی ایشیائی باشندوں کو اپنے ممالک میں کام کرنے کی اجازت دی تھی، بعد ازاں ترقی پذیر ممالک کے غریب بیرو زگار نوجوانوں کے جتھے یورپی دیسیوں کے اسیر بن گئے۔

ہر غریب نوجوان کی اولین خواہش ہوتی ہے کہ وہ یورپ میں جا کر نوکری کرلے۔ اس رجحان نے ترقی پذیر ممالک کے نوجوانوںکوخاصا نقصان پہنچایا اور ترقی پذیر ممالک کے رہنما سیاست دان نوجوانوں کے اس رجحان کو بڑھاوا دیتے رہے کہ یہ نوجوان اپنے ملکوں میں نوکریاں مانگیں گے۔ اب مشرق وسطیٰ کی خلیجی ریاستوں میں محنت کشوں اور دیگر ہنرمند افراد کی طلب ختم ہورہی ہے، ان ریاستوں کے نوجوان اب غیر ملکی محنت کشوں، ہنرمندوں کی جگہ کام کررہے ہیں۔

آج خانہ بدوش مہاجرین اور تاریک وطن اصطلاحیں استعمال کرکے صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہیں مگر ماضی بعید اور تاریخ قدیم میں ایسا کچھ نہیں تھا، صرف ہجرت عام تھی۔ دنیا کے مختلف حصوں میں آباد قدیم قبائل جو دنیا کے حدود اربعہ یا محل ووقوع کے بارے میں ناواقف تھے، محض پانی ، اچھی زمین اور شکار کی تلاش میں مختلف جگہوں پر بھٹکتے پھرتے تھے اور جہاں زمین اور اطراف مناسب معلوم ہوتا، وہاں پڑائو ڈال لیتے تھے۔ بعض قدیم قبائل نے مناسب جگہ پڑائو ڈالا اور پھر وہیں کے ہو رہے۔ اس دور میں نہ شمال، نہ جنوب اور نہ مشرق و مغرب کا پتا تھا، نہ براعظم ملکوں اور سرحدوں کا پتا تھا، جدھر منہ اٹھا چل دیئے۔

ایک طویل عرصہ بعد بتدریج شعور پیدا ہوا۔ زراعت کی طرف دھیان گیا تب دریائوں کی اہمیت اور ضرورت کا کچھ اندازہ ہوا اور بڑے بڑے قبائل نے دریائوں کے پاس بودوباش اختیار کرنا شروع کی۔ دریائوں کے تیز بہائو میں تیر کر ان میں پانی کی اہمیت اور دیگر اشیاء کے حوالے سے آگہی میسر آئی۔ پانی کی زیادہ قربت نے انہیں اپنے حلیئے، صفائی ستھرائی کا شعور بخشا اور رفتہ رفتہ انسانی تہذیبوں کا ارتقاء ہوا۔ قبائل کی دوستی میل ملاپ نے نئی نئی نسلوں کو فروغ دیا۔

قدیم قبائل کے مابین زبردست جنگ و جدال کے بھی سلسلے رہے۔ شکار کے علاقوں پر قبضہ کی لڑائی، عورتوں کے اغوا پر لڑائی، اچھی زمینوں پر لڑائی بھی عام تھی۔ اس سے قدیم نسل انسانی کو شدید نقصانات بھی اٹھانے پڑے۔ زیادہ تر قدیم انسانی غاروں اور گھنے جنگلوں میں رہتے تھے انہیں اپنی رہنے کی جگہوں کی بھی حفاظت کرنی پڑتی تھی، اس پر بھی خونی تصادم ہوئے تھے۔

رفتہ رفتہ وقت بدلتا گیا، رہن سہن بدلے، معاشرے بدلے، سوچنے اور سمجھنے کے انداز بدلے، انسانی خواہشات اور نفسیات میں تبدیلیاں رونما ہوئیں، مگر قدیم انسان سب سے زیادہ قدرتی آفات سے خوف زدہ ہوجاتا تھا۔ دنیا کے قدیم اور عظیم دریا جیسے دریائے ایمیزون، دریائے یانگ سی چن، دریائے سی سپی، امریکا، دریائے سندھ، پاکستان، دریائے گنگا برہم پترا بھارت۔ ان دریائوں میں آئے دن طغیانی برپا ہوتی رہتی تھی ایسے میں بڑے بڑے سیلابی ریلے انسانوں، جانوروں اور گھروں کو بہا لے جاتے تھے۔ یوں انسان قدرتی آفات سے بہت ڈرتا تھا اس کی وجہ سے بھی قدیم انسانوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرنا پڑتی تھی اس لئے مہاجرین یا تارکین کا مسئلہ نیا ہرگز نہیں ہے۔

جب جب ملکوں میں آبادیاں بڑھیں، وہاں افراتفری، مایوسی بھی بڑھ گئی اور عوامی جتھوں نے خوراک کی تلاش میں نقل مکانی کی۔ جب یونان کی آبادی اپنی جغرافیائی حدود سے تجاوز کرگئی تو قریبی علاقوں میں اپنی نوآبادیات قائم کرلیں۔ نقل مکانی اور توسیع پسندی میں دو عوامل زیادہ کارفرما رہے۔ پہلا یہ کہ آبادی میں اضافہ ہوا، زمین تنگ پڑ گئی جبکہ دوسرا صنعتوں کو فروغ دینے اور زیادہ دولت کمانے کے لالچ میں غریب ممالک پر قبضہ کرکے ان کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار کرنے کیلئے سترہویں، اٹھارہویں صدی میں یورپی استعمار پسندوں نے جن ایشیائی اور افریقی ممالک میں اپنی نوآبادیات قائم کی تھیں تو وہ ان ممالک کے قدرتی وسائل کے استحصال کیلئے کی تھیں۔

یورپی استعمار پسند قوتیں غریب ملکوں کے قدرتی وسائل اور سب کچھ چھین کر لے گے اور ان غریب ملکوں کے معاشروں کو تنگ دستی، بیروزگاری اپنے پیچھے چھوڑ گئے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہزاروں لاکھوں بے خانماں غریب باشندے روزگار کی تلاش میں دُنیا بھر میں بھٹک رہے ہیں۔ صرف امریکہ میں اس وقت ڈیڑھ کروڑ کے قریب غیرقانونی تارکین وطن آباد ہیں، جن میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اِسی طرح برطانیہ میں آٹھ لاکھ کے قریب غیرقانونی تارکین وطن ہیں، یہاں بھی نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ان ملکوں میں نوجوان جعلی داخلوں کی دستاویزات خرید کر ویزا حاصل کر لیتے ہیں۔

اس ضمن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یونان میں بیش تر مقامی انسانی اسمگلروں کے دفاتر ہیں جو جعلی دستاویزات تیار کرکے انہیں دُوسرے ممالک میں بھجواتے ہیں جس کے عوض وہ فی کس ہزاروں ڈالر فیس لیتے ہیں۔ غیرقانونی تارکین وطن یا مہاجرین کا مرکز ترکی کا شہر استنبول ہے۔ یہاں اس گھنائونے کاروبار کے علاوہ دیگر غیراخلاقی غیرقانونی کاروبار بھی ہوتے ہیں اس میں زیادہ تر مسلم ایشیائی اور افریقی باشندے ملوث ہیں۔

اقوام متحدہ کے شماریاتی ادارے کے مطابق سال 2020ء تک دُنیا میں غیرقانونی مہاجرین کی تعداد 285 ملین کے قریب تھی۔ ان میں ایشیائی، افریقی، مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک کے مرد اور خواتین شامل ہیں۔ جنوبی امریکہ میں غیرقانونی تارکین وطن اسپین سے جاتے ہیں یا پھر پرتگالی انسانی اسمگلر ان کا بندوبست کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ دُنیا میں بے روزگاری، غربت، دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم، ترقّی پذیر ممالک میں زیادہ تر غیرجمہوری حکومتیں ہیں۔

بیلاروس کے مطلق العنان صدر الیگزینڈر لوکاشنکوف کے تعلقات پولینڈ اور دُوسری مشرقی یورپ کی ریاستوں سے خوشگوار نہیں ہیں۔ یورپی ممالک بیلاروس کے صدر پر سنگین الزام لگا رہے ہیں کہ بیلاروس غیرتارکین وطن کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے اور انہیں ہتھیار دے کر پولینڈ کے راستے یورپی ممالک میں اسمگل کررہا ہے۔ اس وجہ سے پولینڈ نے بیلاروس کی سرحد پر اپنی فوج لگا دی ہے۔ دُوسری طرف روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے بیلاروس کے صدر سے فون پر بات چیت کی ہے۔

روس اور بیلاروس کے تعلقات بہتر ہیں۔ بیلاروس کے صدر الیگزینڈر کے دیگر یورپی ریاستوں سے تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ امریکہ نے تین سال قبل بیلاروس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جمہوریت کی پامالی کی پاداش میں اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں۔ اس غم و غصہ میں بیلاروس کے صدر نے تارکین وطن کو یورپی یونین کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے نیا بحران پیدا ہوگیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اپریل سے بتدریج غیرقانونی تارکین وطن بیلاروس کی سرحد پر جمع ہو رہے تھے۔ گرمیوں میں یہ اجتماع بڑا ہوگیا اور اب موسم خزاں اور برفباری میں تارکین وطن کی حالت غیر ہو چکی ہے۔ سردی مائنس میں جا رہی ہے۔ بیش تر بچوں اور بوڑھوں کی ہلاکتوں کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔

بیلاروس درحقیقت یورپی یونین کے ممالک کے ذریعہ امریکہ اور برطانیہ کو بلیک میل کر رہا ہے۔ یہ پولینڈ کے وزیر خارجہ کا بیان ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ پولینڈ یا کوئی یورپی ملک بیلاروس سے بلیک میل نہیں ہوگا۔ روس کے صدر پیوٹن نے بیلاروس کے صدر کو گزشتہ ماہ پانچ سو ملین ڈالر کا قرض دینے کا وعدہ کیا تھا اس ضمن میں بھی بیلاروس کے صدر نے روس کو یاددہانی کرائی ہے۔امریکہ نے بیلاروس کے غیرذمہ دارانہ رویہ پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے یورپی یونین کے سیکرٹری جنرل سے جاری صورت حال پر بات چیت کی ہے۔ تارکین وطن کو انسانی چھتری کے طور پر استعمال کرنا نہایت سنگین جرم اور بدترین عمل تصوّر کیا جاتا ہے۔

برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک میں بھی بیلاروس کے خلاف شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ امریکی ذرائع اس ضمن میں پوری طرح چوکس ہیں۔ بیلاروس کے صدر الیگزینڈر کے بارے میں عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی عمل کو کر گزرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ اس لئے دیگر یورپی رہنما اس لئے پریشان ہیں کہ ا یسے شخص سے کچھ بعید نہیں ہے۔ پولینڈ کی حکومت پوری طرح باخبر ہے اور صورت حال پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے۔

دُوسری طرف پولینڈ کے فوجی دستوں نے پولینڈ کی بارڈر پولیس کے ساتھ اپنی ڈیوٹیاں سنبھال لی ہیں۔ تازہ خبروں کے مطابق دونوں جانب کے فوجی دستے الرٹ کھڑے ہیں اور تارکین وطن دونوں جانب سے سخت خائف ہیں۔ سردی، بھوک پیاس نے سب کو اَدھ موا کر دیا ہے۔ بیماری پھیلنے کی بھی خبریں آ رہی ہیں۔ خدا جانے ان ہزاروں تارکین وطن کا کیا ہوگا۔ مسلم حکمرانوں کو اس کی قطعی پروا نہیں کہ کوئی بڑا انسانی المیہ رُونما ہو گیا، تب کیا ہوگا۔

برطانیہ نے اپنے فوجی بیلاروس کی سرحد پر پہنچا دیئے

بیلاروس اور پولینڈ کی سرحدوں پر غیرقانونی تارکین وطن کے اجتماع سے نمٹنے کے لئے جب بیلاروس نے پولینڈ کے راستے تارکین وطن کو دیگر یورپی ممالک میں جانے کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو پولینڈ نے سخت مزاحمت کی۔ بتایا گیا کہ بیلاروس نے تارکین وطن کو ہتھیار بھی دیئے ہیں تاکہ وہ بزور قوت سرحد پار جا سکیں، اس سے اس خطّے کی صورت حال بہت مخدوش ہوگی، ایسے میں برطانیہ نے فوری اپنا ایک فوجی دستہ بیلاروس کی سرحد پر روانہ کر دیا۔

اس اثناء میں بیلاروس کی حمایت میںروسی فوجیوں نے سرحد پر فوجی مشقیں شروع کر دیں۔ صورت حال خطرناک صورت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے متعلقہ ملکوں پر زور دیا کہ وہ افہام و تفہیم سے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح بیلاروس کی سرحد پر غیرقانونی تارکین وطن کے مسئلے پر روس، برطانیہ اور امریکہ الرٹ نظر آئے۔ بیلاروس ان تارکین وطن کو دراصل اپنے پر عائد اقتصادی پابندیوں کو ہٹانے کے لئے انسانی چھتری کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔