اسمارٹ فون کا مستقل استعمال اور دماغی صحت

November 21, 2021

بڑے ہوں یا بچے، آجکل ہر کسی کے ہاتھ میں بیشتر وقت اسمارٹ فون دکھائی دیتا ہے۔ ضروری کام کے لیے موبائل استعمال کرنا تو الگ بات ہے مگر ڈرامے، فلمیں، سوشل میڈیا اور گیمز کھیلنے کے لیے متواتر گھنٹوں موبائل استعمال کیا جاتا ہے۔ موبائل ایک سہولت ہے، مگر اس کا غیرضروری استعمال دماغی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے؟ بچوں میں اسمارٹ فون کے بڑھتے استعمال پر ہیلتھ کیئر پریکٹیشنز، ذہنی صحت کےماہرین، والدین اور اساتذہ فکرمند نظر آتے ہیں۔

اسمارٹ فون کے استعمال سے متعلق کیے جانے والے ایک مطالعہ کے دوران محققین کی جانب سے سروے میں شامل شرکاء کو مختلف اوقات میں اسمارٹ فون کے بغیر وقت گزارنے کا پابند کیا گیا ، نتائج میں سروے ماہرین کا کہنا تھا کہ اسمارٹ فون کی عادت ترک کرنا کسی کے لیےبھی بے حد مشکل ہے۔ بچوں کے معاملے میں یہ عمل ان کی پڑھائی، جسمانی ورزش اور کھیلوں سے توجہ ہٹانے کا باعث بنتا ہے، کچھ بچے اسمارٹ فون کے زائد استعمال سے ذہنی اور جسمانی طور پر سست بھی ہوجاتے ہیں۔

اس کے علاوہ ، ان کی نیندکے دورانیے پر بھی اثر پڑتا ہے۔ آپ کسی بھی پارک، مال یا تفریحی مقام کا رُخ کریں تو وہاں بھی بچے ہاتھوں میں اسمارٹ فون تھامے نظر آتے ہیں۔ بچوں کا متواتر موبائل فون استعمال، ان کی ذہنی صحت کے لیے کتنانقصان دہ ہے؟ زیرِ نظر مضمون میں یہی جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔

علمی صلاحیت پر اثرات

ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اسمارٹ فون دماغ پر مختلف قسم کےاثرات مرتب کرتا ہے۔ تاہم، طویل مدتی اثرات اب تک ثابت نہیں کیے جاسکے ہیں۔ شمالی امریکا کی ریڈیو لوجیکل سوسائٹی کی جانب سے پیش کی گئی ایک تحقیق میں محققین یہ تلاش کرنے میں کامیاب رہے کہ اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی عادت کا شکارافراد، ایک کنٹرول گروپ (وہ افراد جو اسمارٹ فون کا استعمال کم کرتے ہیں) کے مقابلے میں عدم توازن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

جرنل آف دی ایسویسی ایشن فار کنزیومر ریسرچ فاؤنڈیشن میں شائع شدہ تحقیق میں بتایا گیا کہ اسمارٹ فون تک رسائی سوچنے اور سیکھنے کی صلاحیت پر اثرانداز ہوتی ہے، چاہے موبائل فون آف ہی کیوں نہ ہو۔

معاشرتی جذباتی صلاحیتوں پر اثرات

پیڈیاٹرکس نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں بوسٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے محققین کی جانب سے چھوٹے بچوں کے لیے موبائل فون اور دیگر گیجٹس پر دستیاب لٹریچر سے متعلق گہرا مطالعہ کیا گیا۔ مطالعاتی نتائج میں محققین، اساتذہ اور والدین کو متنبہ کرتے ہیں کہ بچوں کی تفریح و تسکین کی خاطر موبائل فون یا ٹیبلیٹ کا استعمال ان کی معاشرتی اورجذباتی نشوونما پرنقصان دہ اثرات مر تب کرسکتا ہے۔

محققین اس تحقیق میں بچوں کے والدین سے سوال کرتے ہیں کہ آیا اگربچپن سے ہی موبائل فون یا ٹیبلیٹ بچوں کوخوش کرنے یا ان کی توجہ مبذول کرنے کا ایک بنیادی طریقہ کار بن جائے تو کیا بچے مستقبل میں خود کو منظم کرنے کا کوئی اپنا طریقہ کار اختیار کرپائیں گے؟ لہٰذاماہرین کا کہنا ہے کہ جسمانی سرگرمیاں ، اسکرین گیمز کے مقابلے زیادہ فائدہ مند ہیں۔ موبائل یا پھر دیگر گیجٹس کا استعمال ان سرگرمیوں کے متبادل کے طور پرسب کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔

سوشل انزائٹی کی وجہ

ماہرین کے مطابق بچوں میں موبائل فون کا متواتراستعمال سوشل انزائٹی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اگر ایک بچے یا ٹین ایجر کو سوشل میڈیا پر اس کی توقعات کے مطابق Likes نہیں ملتے تو اس کی عزت نفس متاثر ہوسکتی ہے ۔

چنانچہ آپ نے بچے کو سمجھانا ہوگا کہ سوشل میڈیا ایک سہولت کار ہے جو بات چیت کرنے یا اپنی باتیں شیئر کرنے کا موقع دیتا ہے، یہ ہار جیت کامسئلہ نہیں ہے۔ آپ اپنے بچے کے سوشل میڈیا کے استعمال پر بھی نظر رکھیں اور اس کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ سوشل میڈیا پر کی جانے والی ہر سرگرمی آپ کوبتائے، جیسے کہ اس نے کیا Like اور کیا Commentکیا ہے؟

ڈپریشن کے خطرے میں اضافہ

اسمارٹ فون کا زائد استعمال کسی بھی شخص کے لیے ڈپریشن کے خطرات میں اضافہ کرسکتاہے۔ ایروزونا یونیورسٹی کے زیر اہتمام ایک مطالعہ کا انعقاد کیا گیا، جس میں18 سے 20سال کے346نوجوانوں کو شامل کیا گیا۔ ریسرچر میتھیو لیپیئر اور دیگر محققین نے نتائج میں کسی بھی شخص کے اسمارٹ فون پر زیادہ سے زیادہ انحصار کی صورت میں تنہائی اور ڈپریشن کے خطرات میں اضافے کی پیشن گوئی کی۔

محققین کا کہنا تھا کہ لوگ ان ڈیوائسز پر بہت زیادہ انحصار کرنے لگے ہیں اور اگر وہ ان کی رسائی میں نہ ہو تو ذہنی طور پر بے چینی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسمارٹ فون کے متواتر استعمال سے متعلق ایک جائزے کے مصنّف نے غورکیا کہ اسمارٹ فون کی وجہ سے برین کینسر میںاضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اگرچہ اس کے اعداد و شمارمتنازعہ ہیں لیکن ہر چیز کے کچھ نہ کچھ منفی اثرات بھی تو ہوتے ہی ہیں۔

کینسر رجسٹریز کی رپورٹ کے مطابق حالیہ برسوں میں ڈنمارک اور امریکا میں گلائیابلاسٹوما (برین ٹیومر کی ایک قسم ) کی شرح بڑھ گئی ہے اور آسٹریلیامیں برین کینسر کے امراض بڑھ چکے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں کے مقابلے میں اب بچپن سے ہی برین ٹیومر کی تشخیص میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔