برآمدات میں اضافہ کیسے ہو؟

November 27, 2021

(گزشتہ سےپیوستہ)

کاروباری نقطہ نظر سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنے کے لیے تربیت یافتہ، صحت مند، حوصلہ مند اور مطمئن افرادی قوت میں سرمایہ کاری کی ضرورت اور اہمیت کی پہلے بھی وضاحت کی جاچکی۔ پائیڈ کے ایک مطالعے کے مطابق پیداواری صلاحیت کو موجودہ سطح سے تین فیصد اور اس سے اوپر تک بڑھانے سے جی ڈی پی کی شرح نمو چھ فیصد سے بھی بلند ہوسکتی ہے۔ الجھن یہ ہے کہ اعلیٰ پیداواری صلاحیت کیسے حاصل کی جائے؟ مندرجہ ذیل سطور میں ہم کچھ نکات کو اجاگر کریں گے۔

انفرادی طور پر ہر فرم میں تربیت پر بہت زیادہ اخراجات اٹھ جاتے ہیں۔ اس لئے اس کام کو اجتماعی سطح پر کرنے کی تجویز ہے۔ تمام برآمدی فرموں کوخود کو منظم کرنا چاہیے اور شفاف قواعد و ضوابط کے تحت سیکٹرل ایکسپورٹ کونسلز کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔ صرف حقیقی برآمد کنندگان کو ہی کونسل کا حصہ بنایا جائے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو برآمدی شعبوں سے متعلق کچھ ٹیکنیکل اور ووکیشنل اداروں کا انتظام اور آپریشن ان کونسلز کے حوالے کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر، TEVTA کے تحت سیالکوٹ میں کھیلوں کے سامان، آلات جراحی، چمڑے کے کپڑے، دستانے اور تیار کرنے والے تمام ادارے متعلقہ سیکٹرل کونسلوں کے حوالے کیے جائیں۔ یہ ادارے ان فرموں کے لیے موجودہ اور مستقبل میں درکار ہنر مندوں کی کمی پوری کرنے کے لیے تربیتی کورس ترتیب دے سکتے ہیں، ان کا معیار بہتر بناسکتے ہیں اور بدلتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر ان میں جدت لاسکتے ہیں۔ ان اداروں میں داخلہ لینے والوں کو برآمد کنندگان کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ اُن کی عملی تربیت بھی ہوجائے۔ شارٹ کورسز کے ذریعے نت نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائی جا ئے۔ کورسز کی تسلی بخش تکمیل پر تربیت یافتہ افراد فرموں میں اپرنٹس شپ حاصل کر سکتے ہیں۔ بہترین اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر اُنھیں باقاعدہ ملازمتیں دی جا سکتی ہیں۔ برآمد کرنے والی فرموں میں مزدوروں کی اجرت متغیر ہونی چاہیے۔ اجرت کا ایک حصہ طے شدہ ہو جسے مہنگائی اور مالی ضروریات سے منسلک کیا جائے اور دوسرا متغیرہو جو کارکردگی سے منسلک ہو۔ معقول اجرت مستعدی سے کام کرنے اور فرم میں رہنے کی ترغیب دیتی ہے۔ تجربہ کار کارکن پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں۔وفاقی اور صوبا ئی سطح پر TEVTAs اور NAVTTC کو معیارطے کرنے، بین الاقوامی اداروں کے ساتھ روابط قائم کرنے، ضرورت مند لیکن ہونہار طالب علموں خاص طور پر خواتین کو مالی امداد فراہم کی ذمہ داری سونپی جائے۔غیر ملکی ماہرین کو لانے کے لیے قانونی اور ریگولیٹری ذمہ داری بھی ان کے دائرہ کار میں ہو۔ شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ممبران کو بیرونی ممالک، جیسے جرمنی اور ترکی کے اداروں میں بھیجا جائے۔ جدت اور تحقیق کی سرگرمیاں آگے بڑھانے کے لیے مسابقتی گرانٹس اداروں کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے تدریسی عملے کو بھی فراہم کی جائیں۔ مزدوروں اور ملازمین کے بچوں کے لیے صحت اور تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں تو وہ کام چھوڑ کر نہیں جاتے۔

ورکرز ویلفیئر فنڈ اب حکومت کو جمع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کے استعمال اور افادیت کا ٹریک ریکارڈ بہت تسلی بخش نہیں۔ یہ رقوم سیکٹرل ایکسپورٹ کونسلز کے ذریعے جمع کی جانی چاہئیں۔ مزدوروں اور ان کے خاندانوں کے لیے کم لاگت کے مکانات کے لیے بینکوں سے آسان شرائط پر قرضے حاصل کرنے کا بندوبست ہو۔ گھر کا مالک ہونا ذہنی اطمینان کا پتہ دیتا ہے جس سے ہنرمندوں کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ ٹی ڈی اے پی کو صرف اس بات کی نگرانی کرنی چاہیے کہ آیا فنڈز صحیح طریقے سے اور مطلوبہ مقصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں یا نہیں؟انتظامیہ کی پیشہ ورانہ فعالیت بھی توجہ کی مستحق ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ہماری پہلی نسل کے صنعت کاروں کے کچھ بیٹے اور بیٹیاں کچھ نامور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر کے واپس جا رہے ہیں۔ وہ اختراعی خیالات کے حامل ہیں اور انہیں اپنے خیالات کو عملی شکل دینے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ رشتہ داروں اور دوستوں کو کمپنی میں جگہ دی جانی چاہئے بشرطیکہ وہ مناسب تربیت یافتہ اورکام کرنے کے اہل ہوں۔ خاندانی ملکیت میں چلنے والی کمپنیاں وفاداری کو اہمیت دیتی ہیں۔ لیکن وابستگی کوپیشہ ورانہ مہارتوں کے ساتھ جوڑ کر پیداواری صلاحیت کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ انہیں فرم کے باہر کے دیگر پیشہ ور افراد سے مقابلہ کرنے دیں۔ اگر وہ اس قابل ہیں تو خاندان کے افراد کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ آٹومیشن اور ڈیجیٹلائزیشن کے ساتھ ہی پروفیشنلائزیشن موثر ثابت ہوپائے گی۔ بہت سی فرموں نے ERPs انسٹال کیے ہیں۔

مینجمنٹ کنسلٹنسی فرموں کی خدمات حاصل کرتے ہوئے اہم پوزیشن، کام کے طریق کار، فیکٹری لے آئوٹ، لاجسٹک، مینجمنٹ اور سپلائی چین پر نظر رکھنی چاہیے۔ انڈین کمپنیاں بین الاقوامی کنسلٹنسی فرموں کے ساتھ باقاعدگی سے کام کرتی ہیں جنہوں نے پوری دنیا میں اربوں ڈالر مالیت کے اثاثے حاصل کرنے، ہندوستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے، غیر ملکی شراکت داروں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں یا مارکیٹنگ کے انتظامات کو آسان بنانے میں ان کی مدد کی ہے۔ زیادہ تر ملٹی نیشنل کمپنیاں بشمول امیزون اور ایپل ان کے ساتھ شراکت کے لیے ہندوستانی کمپنیوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ کنسلٹنسی فرمیں ہندوستان میں اپنی کلائنٹ کمپنیوں کے لیے غیر رسمی سفیر کا کام کرتی ہیں اور انھیں آنے والے مواقع سے آگاہ کرتی رہتی ہیں۔ ہماری فرمیں مستقبل کے اسٹرٹیجک منصوبے بنانے کے لیے عالمی کنسلٹنسی فرموں سے گریز کرتی ہیں۔ وہ صرف زیادہ لاگت کے حوالے سے سوچتی ہیں اور آنے والے وقت میں ان کی وجہ سے حاصل ہونے والے منافع کو نظر انداز کردیتی ہیں۔ UNCTAD کی تیار کردہ عالمی سرمایہ کاری کی رپورٹ کے مطابق، ترقی پذیر ممالک کی ملٹی نیشنل فرمیں تیزی سے ترقی کرنے والی کمپنیاں بن رہی ہیں لیکن ہم اس محاذ پر شکست کھا رہے ہیں۔