بلا بلا کی چالیں

November 27, 2021

یہ حقیقت ہے کہ جب بھی نواز شریف اور مریم صفدر سے متعلق کیسز کی سماعت ہونا ہوتی ہے تو وڈیو یاکسی اور متنازعہ مواد کی آڑ میں احتجاج شروع کر دیا جاتاہے اورایک کے بعد دوسری احمقانہ وجہ کاحوالہ دے کر سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی جاتی ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ تقریباً پانچ سال میں سزا یافتہ مفرور نواز شریف اور ان کی صاحبزادی ایک آسان سوال کا جواب نہیں دے سکے کہ غیر ممالک میں اربوں کے کاروبار اور جائیدادیں خریدنے کے لئے آمدنی کے جائز ذرائع کیا ہیں؟اس دوران مریم اور ان کے حامی اپنی جعلی اور من گھڑت کہانیوں کی مارکیٹنگ کے لیے ٹوٹے کاٹنے اور چسپاں کرنے میں بہت مہارت حاصل کر گئے ہیں، اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ ہمارا نظام اس ڈرامے کو کسی احتجاج کے بغیرہی جذب کر رہا ہے۔چنانچہ ان کی تمام درخواستیں منظور بھی ہو جاتی ہیں۔ ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کے لئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کی مشترکہ میزبانی میں منعقدہ دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کو عامیانہ احتجاج میں تبدیل کردیا گیا تاکہ شرکاء کو متنازعہ بنا یا جاسکے۔ ججز، اور تقریب میں موجود افراد بشمول چیف جسٹس آف پاکستان اور اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔چیف جسٹس نے عدلیہ پر تنقید کا سخت الفاظ میں جواب دیا اور تقریر مکمل کیے بغیر رخصت ہو گئے۔

یہ سوچنا ہوگا کہ معززجج صاحبان نے ایک ایسی تقریب میں شرکت پر رضامندی کیوں ظاہر کی جس میں نواز شریف نے اختتامی تقریر کرنی تھی۔ عدالت کے ججوں کا سابق وزیر اعظم کے ساتھ ایک ہی پلیٹ فارم سے اپنانقطہ نظر بیان کرنا بڑاعجیب تھا۔ کیا ایسا کرتے ہوئے ججوں نے اپنی موجودگی سے منتظمین کو اپنے مقاصد آگے بڑھانے کی ساز بازکا موقع فراہم نہیں کیا؟ کچھ عرصے سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے مذموم منصوبے کا حصہ بننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ا س میں سہولت کاری کے لیے،ناقابل یقین حد تک بڑی رقوم ان آپریٹرز میں تقسیم کے لئے دی جاتی ہیں جوانتشار کے جراثیم کو آگے لے جانے کے آلہ کار بن رہے ہیں او راہم ریاستی ادارو ں ، خاص طور پر فوج اور عدلیہ کے بارے میں شکو ک و شبہات پیدا کر رہے ہیں۔ اس بیانیے کو پروان چڑھانے کے لیے موخرالذکر کو اپنا جائزہ لینا پڑے گا کیونکہ یہ تاثر عام ہے کہ امیر اور طاقتور لوگ ملک میں انصاف خرید سکتے ہیں۔بدقسمتی سے ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے، یہاں تک کہ شریفوں کے خلاف بقایا کیسز کوبے وجہ طوالت دی جا رہی ہے جس سے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رول آف لا انڈیکس 2021 کی رپورٹ کے مطابق،پاکستان 139 ممالک میں 130 ویں نمبر پر ہے۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے پاکستان افغانستان سے بمشکل اوپر ہے جبکہ بھارت سمیت سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش نے پاکستان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

مقدمات کو نمٹانے میں تاخیر ایک اور سنگین مسئلہ ہے۔صرف سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد53ہزارسے زائد ہے جبکہ پاکستانی عدالتوں میں کل زیر التوا مقدمات 20 لاکھ سے زائدہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ لاہور ہائی کورٹ میں تقریباً 2لاکھ مقدمات، سندھ ہائی کورٹ میں 86ہزار، پشاور ہائی کورٹ میں 44ہزار، بلوچستان ہائی کورٹ میں 45سو اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں16ہزار5سو مقدمات زیر التوا ہیں۔ ایک مشہور مقولہ کے مطابق انصاف کی فراہمی میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔ اگر پاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو اس کا آغاز تمام لوگوں کو ان کی مالی حیثیت اور عہدوں کی طاقت سے قطع نظر فوری اور شفاف انصاف کی فراہمی سے ہوگا۔ حکومت کے لئے ملک میں سازشوں کے بڑھتے ہوئے واقعات تشویش کا باعث ہیں۔ اس مذموم عمل میں میڈیا کا ملوث ہونا اس تماشے کو خطر ناک موڑ دیتا ہے۔ جس کی کئی جہتیں ہیں۔ حال ہی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ٹرسٹ فار ڈیموکریٹک ایجوکیشن اینڈ اکائونٹیبیلیٹی (ٹی ڈی ای اے ) جو فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (FAFEN) کوسپورٹ کرتا ہے کا ایک کانفرنس میں ای سی پی کے سینئر عہدیداروں کے ذاتی اخراجات برداشت کرنا مفادات کے تصادم کی صورتحال پیدا کرگیا ہے ٹی ڈی ای اے فافن کی معاونت کرتا ہے اس لئے فافن کو اپنا کام ای سی پی سے آزادانہ طور پر کرنا چاہئے ۔ دونوں اداروں کے درمیان اس قسم کے گٹھ جوڑ نے ان کی سرگرمیوں کی شفافیت اور ان کے نتائج کی ساکھ کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ صحافیوں کی ایک ٹریڈ یونین کو اسی باڈی کے ذریعے ایک بڑی رقم پہنچا ئے جانے کی خبریں بھی گردش کر ر ہی ہیں اس پریکٹس میں مبینہ طور پر ملوث تمام افراد کی نشاندہی مکمل تحقیقات کا تقاضا کرتی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے انتخاب کے بعد سے ہی بدعنوان خاندانوں کی سربراہی میں اُن کے حامیوں اور سیاسی مافیاز نے انہیں عہدے سے ہٹانے کے لیے آپس میں گٹھ جوڑ کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اشتعال انگیزی مزید شدید اور زہریلی ہوتی جا رہی ہے۔ریاست اور اس کے اداروں کو چیلنج کرنے کی ان کی یہ کوشش سنگین ہو گئی ہے جو اپنے ذاتی اغراض و مقاصد، مفادات کی تکمیل اور اپنے بدعنوان قبیلوں کے لیے سیاسی تنہائی کے امکان سے بچنا چاہتے ہیں۔ پوشیدہ دشمنی کے ایجنڈے والے ہاتھ کھل کر سامنے آگئے ہیں یہ خطرناک مہم نفرت کی بنیادوں سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ گھٹیا اور مطلبی مشین خطرناک میکانزم سے کام کرتی ہے۔ اس کا ناکام ہونا ضروری ہے۔ریاست اور اس کے تمام اداروں کو مکمل استدلال کے ساتھ اس کوشش کو ناکام بنانا چاہئے اور عد لیہ کو اس کاوش میں پیش پیش ہونا چاہئے۔ یاد رہے کہ ضائع کرنے کا کوئی وقت نہیں کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سازشوں کی جڑیں مزید گہری ہوتی جا رہی ہیں۔