خطے میں تبدیلیاں اور بلوچستان

January 06, 2022

ازل سے ہر شعبہ ہائے زندگی میں ارتقا کا عمل جاری ہے۔ کہیں پر اس کی رفتار کچھ تیز ہے اور کہیں پر یہ عمل انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ بعض نئی چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں اور کچھ وقت کے ساتھ ساتھ ارتقاکے عمل میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ختم ہو جاتی ہیں۔ دنیا کی تاریخ ان مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ کل کا کمیونزم آج قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ اب تو خال خال ہی سرخے نظر آتے ہیں۔ یورپین یونین کا وجود بھی ارتقائی عمل کی وجہ سے ہی عمل میں آیا ہے۔ چین نے کمیونزم کے بنیادی فلسفے کو چھوڑ کر مارکیٹ اکانومی کو اپنا لیا ہے۔ سعودی عرب میں بھی تبدیلی کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ اب وہاں سینما گھر کھل چکے ہیں۔ فنکاروں کے بڑے بڑے کنسرٹ ہو رہے ہیں۔ معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں بھی ایک دو دہائیوں میں بادشاہتوں کا قصہ تمام ہو لیکن پاکستان اور خصوصا بلوچستان میں ارتقائی عمل بہت سست یا غالباً رک سا گیا ہے ہماری پولیٹکل لیڈر شپ کل بھی سلیکٹڈ تھی اور آج بھی ہے اور شاید آنے والے پانچ دس سال بھی یہی کیفیت برقرار رہے کیونکہ فطری تبدیلی یا بہت سے غیر فطری عوامل ارتقا کے عمل میں رکاوٹ ثابت ہوئے ہیں جس کا خمیازہ غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی محرومیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بہتری کی امید کم ہی نظر آتی ہے۔

ایک موہوم سی امید اس صورت میں ہے کہ فیصلہ ساز اداروں میں اچھے لوگوں کا انتخاب ہوا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اس صوبے کو قریب سے دیکھا ہے یہاں سروس کی ہے کیونکہ خطے کے بدلتے حالات کا تقاضا ہے کہ ملکی سطح پر ہم تبدیلی کی جانب جائیں کیونکہ خطے کے حالات نے ملکی حالات کو بھی متاثر کیا ہے، اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ کی تبدیلی سے بھی خصوصاً بلوچستان میں لوگ اپنے مسائل کو قریب سے دیکھنے والے کے طور پر پرامید ہیں، فیصلہ ساز ادارہ ایک ایسے شخص کے حوالے کیا گیا ہےجو بطور آئی جی ایف سی چمن سے لے کر گوادر تک خود سفر کر چکا ہے اور یہاں کے عوام کے مزاج اور نبض کو سمجھ سکتا ہے اور سمجھا بھی سکتا ہے، خدا کرے کہ یہ تبدیلی بلوچستان کے تناظر میں فیصلہ کن ثابت ہو کیونکہ خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال اب یہاں پر بھی پالیسی سازوں کو پالیسی کا دوبارہ جائزہ لینے کا تقاضا کر رہی ہے۔ ماضی میں مخصوص کچھ لوگوں کے رحم وکرم اور مشورے سے صوبے کو انتظامی اور سیاسی طور پرچلایا گیا جس کے دور رس نتائج اب تک دیکھنے کو نہیں مل رہے بلکہ ناراضی اور نظام دونوں مزید خرابی کی طرف گامزن ہیں۔ آج مکران ڈویژن سے مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ بلوچستان کے بلوچ قوم کے قائد کے طور پر سامنے آئے ہیں، جنرل ندیم انجم بطور آئی جی ایف سی بلوچستان اپنی صلاحیتوں کالوہا منوا چکے ہیں۔ اب بھی امید یہی ہے کہ وہ بلوچستان میں اپنے گزرے وقت، تجزیے اور تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق صوبے کے سیاسی اور انتظامی معاملات اہل لوگوں کے ذریعے چلانے میں مدد دیں گے اور وہ خصوصاً بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان موجود بداعتمادی کی فضا کے خاتمے میں اہم کردار ادا کریں گےکیونکہ بطور آئی جی ایف سی بلوچستان وہ زیارت میں قائداعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش کے موقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ قائداعظم اور بلوچستان کے سلسلے میں کچھ نکات آپ کے سامنے رکھتا ہوں قائداعظم محمد علی جناح کو بلوچستان، بلوچستان کے عوام اور بالخصوص نوجوانوں سے بہت محبت تھی۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ 1927میں پاکستان بننے سے 20سال پہلے قائداعظم نے بلوچستان کے لوگوں کیلئے جدوجہد شروع کی اس جدوجہد میں ان کی مخالفت انگریز سرکار کے علاوہ جواہر لال نہرو اور ہندو کانگریس نے کی لیکن ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 1939کو قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ بلوچستان کی بنیاد رکھی اور اس وقت کے ایک انتہائی اچھے، قابل اور محبِ وطن قاضی عیسیٰ کو آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر مقرر کیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تلخیوں کی سیاست، سوچ اور عدم اعتماد کی فضا کو ختم کرکے ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے اور مفاہمت کی طرف بڑھا جائے کیونکہ افراد کے سخت رویوں اور ناراضیوں کا نقصان بالآخر ملک کو ہی ہوتا ہے۔ ملک کی خاطر مفاہمت اور اپنا موقف چاہے وہ جاندار ہو یا غیر جاندار سے ہٹنے میں کوئی برائی کسی کو محسوس نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اگر ملک ہے تو نظام ہے اور ملک کے منصب پر موجود لوگ اور ان کے عہدے ہیں، ان کی اہم پوسٹ پر تعیناتی سے ہو سکتا ہے ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے اور ملک کے مفادات کی بجائے پہلے اپنے مفاد کا سوچنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو۔