بھارت میں مسلم نسل کُشی: عالمی ادارے کا انتباہ

January 17, 2022

مذہبی تعصب، تنگ نظری اور فرقہ پرستانہ نفرت انگیزی پر مبنی آر ایس ایس کے مکروہ نظریات کی علم بردار مودی حکومت کی پالیسیاں بھارت کی پچیس کروڑ سے زائد مسلمان آبادی کی نسل کُشی کے خطرات جس تیزی سے بڑھارہی ہیں،اُسے نہ صرف ملک کے اندرباشعور اور اعتدال پسند حلقے شدت سے محسوس کررہے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ ماہ رواں کے اوائل میں بھارت کے پانچ سابق فوجی سربراہوں سمیت سو سے زائد اعلیٰ فوجی و سول افسروں اور ممتاز شخصیات کا وزیر اعظم مودی کے نام لکھا گیا ایک خط منظر عام پر آچکا ہے جس میں شدت پسند ہندو تنظیموں اور لیڈروں کی جانب سے جلسوں جلوسوں میں علی الاعلان مسلمانوں کے قتل عام کے کھلے عزائم کے اظہار پر انتہائی تشویش ظاہر کرتے اور اس رجحان کو بھارت کے اتحاد و سالمیت کے لیے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کے فوری سدباب پر زور دیا گیا ہے۔اس ضمن میں تازہ ترین پیش رفت جینو سائیڈ واچ نامی عالمی ادارے کے بانی اور روانڈا میں ربع صدی قبل ہونے والی خوفناک انسانی نسل کُشی کی پانچ سال پہلے پیش گوئی کرنے کے حوالے سے معروف ممتاز امریکی دانشور اور محقق ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن کا یہ انتباہ ہے کہ مودی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں بھارت میں بہت جلد مسلمانوں کی نسل کُشی کی صورت میں میانمار اور روانڈا جیسے حالات رونما ہوسکتے ہیں۔ جینو سائیڈ واچ دنیا کے کسی بھی خطے میں نسل کشی کے خطرے سے عالمی رائے عامہ کو خبردارکرنے اور اسے روکنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کو متحرک کرنے کی خاطر دو دہائی قبل تشکیل دی گئی عالمی تنظیم ہے۔ ڈاکٹر اسٹینٹن امریکہ کی جارج میسن یونیورسٹی میں نسل کشی کے مطالعے اور روک تھام کے سابق ریسرچ اسکالر ہیں۔ڈاکٹر اسٹینٹن نے یہ اظہار خیال انڈین امریکن مسلم کونسل کے زیر اہتمام ’’کال فار جینوسائیڈ آف انڈین مسلمز‘‘ کے عنوان سے کانگریس کی بریفنگ کے دوران کیا۔ اپنے ویڈیو خطاب میں ڈاکٹر اسٹینٹن نے بتایا کہ ’’ جینوسائیڈ واچ 2002 سے ہندوستان میں نسل کشی کی وارننگ دے رہی ہے جب گجرات میں فسادات اور قتل عام ہوا۔اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی تھے اور انہوں نے اس کے خلاف کچھ نہیں کیا بلکہ اس بات کے بڑے ثبوت موجود ہیں کہ انہوں نے دراصل اس قتل عام کی حوصلہ افزائی کی ۔انہوں نے اپنی سیاسی بنیاد بنانے کے لیے ''مسلم مخالف اسلامو فوبک بیان بازی'' کا استعمال کیا ۔‘‘ڈاکٹر اسٹینٹن کے مطابق مودی نے اس مقصد کی خاطر دو طریقے اختیار کیے گئے یعنی2019 میں ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی خود مختارانہ حیثیت کا خاتمہ اور اسی سال شہریت ترمیمی ایکٹ کا نفاذ جس کے تحت بھارت میں عشروں پہلے بنگلہ دیش اور افغانستان سمیت دوسرے ملکوں سے آکر آباد ہونے والے تمام لوگوں کو نہیں بلکہ امتیازی طور پر صرف مسلمانوں کو بھارت چھوڑنے پر مجبور کیا جاسکے ۔ انہوں نے بتایا کہ میانمار کی حکومت نے بھی بالکل اسی طرح پہلے ایک قانون سازی کرکے روہنگیا کو غیر ملکی قرار دیا اور پھر تشدد اور نسل کشی کے ذریعے انہیں بے دخل کیا جبکہ اقوام متحدہ کا نسل کُشی سے متعلق بین الاقوامی معاہدہ ایسی کسی بھی مکمل یا جزوی کارروائی کو انسانیت کے خلاف سنگین جرم قرار دیتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کُشی کے مسلسل بڑھتے ہوئے خطرے کے حوالے سے امریکی کانگریس میں ڈاکٹر اسٹینن کا واقعاتی حقائق پر مبنی یہ انتباہ بجا طور پر پوری مہذب دنیا کی فوری توجہ کا حق دار ہے۔ اقوام متحدہ کو بلاتاخیر اس خطرے کے سدباب کے لیے نتیجہ خیز اقدامات عمل میں لانے چاہئیں اور ستاون ملکوں پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم کو بھی اپنی زندگی کا ثبوت فراہم کرنا چاہئے بصورت دیگر بین الاقوامی امن کی علم برداران تنظیموں کا عدم اور وجود یکساں ہوکر رہ جائے گا۔