توجہ ہٹانے کے حربے

January 18, 2022

کسی بھی قوم پر سب سے کٹھن وقت وہ ہوتا ہے کہ جب اس کے حکمران حقیقی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی پر عوام کی توجہ مسائل سے ہٹا کر انہیں الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ وطن عزیز میں معاشی تباہی، مہنگائی، شہریوں کا سماجی عدم تحفظ، قومی سلامتی سے جڑے سنگین خطرات اور ان تمام خطرات کی ماں سیاسی عدم استحکام یا یوں کہہ لیجئے کہ غیر حقیقی سیاسی صورتحال کا قیام ہے جو روز بروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ان تمام مسائل کی جانب سے عوام کی توجہ ہٹانے کی غرض سے احتساب سے لے کر قومی سلامتی پالیسی تک کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں، انگریزی میں ایک مضمون تحریر کریں اور عوام کی توجہ اس کی جانب مبذول کروا دو اور ایسا وہ لوگ کر رہے ہیں کہ جن کو قومی سلامتی کی الف بے کا بھی علم نہیں ، مثال کے طور پر آئی ایم ایف سے معاملات پر وزرا اور ان کے کپتان کے بیانات ہی آپس میں نہیں ملتے۔

مشرف کے دور میں ضلعی مجسٹریسی کا نظام ختم کرکے پوری دنیا سے ٹوٹے اکھٹے کرکے بلدیات کا نظام قائم کیا گیا۔ نہ تو وہ نظام چل سکا اور نہ ہی سابقہ نظام ہی بچ سکا ۔ اسی کی مانند قومی سلامتی پالیسی بھی ہے بس ادھر ادھر سے نکات اٹھائے اور تیار کردی۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے مستقل رہائش ملے گی، ترکی اور دیگر ممالک سے یہ پروگرام اٹھایا اور بیان کر دیا گیا ان تمام ممالک کے حالات اور کشش اور ہے جبکہ پاکستان میں حالات اور رخ پر گامزن ہیں لیکن بس خانہ پُری کرنی تھی کر لی کہ عوام کو اب چند اور دنوں اس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جائے۔ ورنہ اس حوالے سے اصل ہدف یہ ہونا چاہئے کہ جو لوگ پاکستان سے سرمایہ لیکر دیگر ممالک میں جا رہے ہیں اور ایسے ممالک بھی کہ جن کا نام لینا بھی مناسب نہیں، پہلے ان کو تو روک لیا جائے۔ قومی سلامتی کی پالیسی ریاست کی ہوتی ہے کسی ایک سیاسی جماعت یا حکومت کی نہیں ہوتی مگر یہاں تو معلوم نہیں کہ پوری حکومت بھی حکومت کے ساتھ ہے کہ نہیں۔ بہرحال ایسی حکومتیں جن کی نمائندہ حیثیت کے آگے بہت سارے سوالیہ نشان موجود ہوں ان کا اپنے وقت کو گزارنے کے لیے ایوب خان کے بی ڈی ممبران، ضیاءالحق کا سائیکل چلانا اور مشرف کا مکا دکھانے کی مانند قومی سلامتی جیسے حساس موضوع کو تختہ مشق بنانا اچنبھے کی بات نہیں۔ ایسے حساس موضوعات پر صرف پوائنٹ اسکورنگ کے لیے اقدامات کرنا انتہائی غیر ذمہ دارانہ طرز عمل ہے پاکستان کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات دو نوعیت کے ہیں۔ اول خطرہ تو گھر کے اندر سے ہے اور وہی سب سے بڑا خطرہ ہے کہ ہم اپنے اندرونی معاملات کو بین الاقوامی طور پر طے شدہ سیاسی اخلاقیات کے مطابق نہیں چلا رہے ، انتہائی درجے کا ناپسندیدہ عمل ہے کہ غیر سیاسی قوت سیاست کو اپنے تابع فرمان کرلے جبکہ کتابی طور پر وہ آئین کی تابع فرمان ہو۔ معیشت کی تباہی سے لیکر سماجی گروہوں میں باہمی اختلافات تک اسی حکمت عملی کا شاخسانہ ہیں۔ جنرل مشرف نے اپنے دور اقتدار میں ایک انٹرویو میں خود تسلیم کیا تھا کہ ان کے دور میں وفاق کمزور ہوا ہے اور کیا ثبوت درکار ہے ؟ دوسرا خطرہ بھارت کی جانب سے ہے، وہ ہمہ وقت ہماری فالٹ لائن سے فائدہ اٹھانے اور ہمیں نقصان پہنچانے کی سرگرمیوں میں مصروف رہتا ہے۔ ہمیں بلوچستان کے مسائل سے لے کر انتخابی دھاندلی تک کی فالٹ لائنز کو ختم کرنا ہو گا پھر دشمن کی کیا مجال کہ وہ دوبارہ 16 دسمبر 1971 کو دہرانے کا تصور بھی کر سکے مگر اس کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں بلکہ جو فالٹ لائنز نہیں بھی ہیں ان کو بھی کوشش کر کے فالٹ لائنز میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اور چین کی دوستی زبردست معاشی اور سلامتی کے تقاضوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ہمارے جیسے لوگ چیخ چیخ کر تھک گئے مگر اس کے مسائل کی طرف دھیان ہی نہیں دیا جا رہا ہے۔ سی پیک کی صورت میں 2015 میں ایک ایسا منصوبہ پیش کیا گیا تھا کہ جس کی بروقت تکمیل کے ذریعے سے قومی سلامتی کے بہت سارے مسائل کو دفنایا جا سکتا تھا۔ مگر بوجوہ اس اہم قومی نوعیت کے منصوبے کو دانستہ طور پر تاخیر کا شکار کر دیا گیا۔ عمران خان بہت عرصے سے کوشش کر رہے تھے کہ وہ چین کا دورہ کر سکیں مگر ان کو انہی اسباب کے سبب سے موقع نہیں دیا جا رہا تھا۔ اب چین میں سرمائی اولمپکس کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ کھیلوں کے اس بڑے ایونٹ کے موقع پر ان کو چین جانے کا موقع مل رہا ہے کیوں کہ امریکہ اس ایونٹ کی مخالفت کر رہا ہے اس لئے چین موقع دے رہا ہے کہ دورہ ہو سکے جس میں سائیڈ لائن پر ان کو چینی قیادت سے بھی ملاقات کا موقع ملے گا اور ضروری طور پر ان سے یہ سوال ہوگا کہ چینی کمپنیوں کے جو بل یہاں پر رکے ہوئے ہیں اس کی کیا وجوہات ہیں اور وہ کھاتے کب تک صاف کر دئیے جائیں گے۔ یہاں تو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ سی پیک کا پہلا فیز مکمل ہوگیا ہے مگر چینیوں کی نظر میں ایسا نہیں ہے۔ سی پیک فیز ون کا سب سے بڑا منصوبہ ایم ایل ون ہے جو ابھی تک صرف فائلوں میں ہے اور موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے اس کی وجہ سے وہ رہے گا بھی فائلوں میں ہی قید، اور یہی وہ سوال ہے جو چین میں سب سے اہم ہو گا۔