داخلی سلامتی و عوامی خوشحالی: مطلوب تقاضے

January 20, 2022

گزرے دو عشروں میں ہمارے پیچیدہ ترین ملکی حالات نے بالآخر ہمیں بحیثیت قوم داخلی سلامتی اور عوامی خوشحالی کی اہمیت کا احساس دلانا شروع کر دیا ہے۔ پاکستان 9/11کے بعد جتنی اور جیسی بیرونی و اندرونی دہشت گردی کا شکار ہوا، وہ بحران در بحران اور ایک سے بڑھ کر ایک سیاسی، سماجی اور اقتصادی ڈیزاسٹر کا باعث بنا۔ بیرونی دہشت گردی نے جہاں ہمارے چھوٹے چھوٹے اسکولوں سے لے کر بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے در و دیوار کو خاردار باڑوں سے محفوظ کرنے پر مجبور کر دیا وہاں ہماری پارلیمانی پارٹیوں نے بھی دہشت مچا کر ہر جگہ شہریوں اور صنعتی و تجارتی سرگرمیوں پر لرزہ طاری کیے رکھا۔ انتہائی غلط فیصلوں اور مِس ہینڈلنگ نے بلوچستان کو بری طرح بھڑکا دیا۔ پولیس کے بوسیدہ نظام کے متوازی مکمل ڈیزاسٹر سے بچنے کے لیے گلی، محلوں، بازاروں، بینکوں اور اسکولوں کالجوں تک کو محفوظ رکھنے کے لیے ہم پرائیویٹ سیکورٹی سسٹم کا مستقل سہارا لینے پر مجبور ہو گئے۔ این آر او کی آمرانہ عنایت نے کرپٹ سیاسی قوتوں کو بیش بہا قوت بخشی۔ سرحدوں کی ہی نہیں ہمیں دو عشروں میں ملک کے اقتصادی مرکز و محور کراچی کی حفاظت کے لیے بار بار رینجرز بلانی پڑتی اور کئی مقامات پر تو مستقل تعیناتی لازم قرار پائی۔ ہماری داخلی سلامتی پر برسوں کے جاری حملے کی انتہا پشاور کے اسکول میں معصوم بچوں، اساتذہ و عملے کے ہولناک قتال پر ہوئی۔ بالآخر اندرون ملک بےقابو دہشت گردی پارلیمانی اور ملٹری فورسز کے مشترکہ متفقہ فیصلے و اقدام کے نتیجے میں ہی قابو میں آئی۔ اس صورتحال میں بھی ہمارے بحال ہوئے بیمار و لاغر ارتقا سے محروم سیاسی جمہوری عمل میں پارلیمانی و انتظامی دھما چوکڑی میں لندن سے ہونے والی سیاسی ابلاغ سے دہشت گردی جاری رہی اور بدترین کرپشن اور مکمل انتظامی ڈیزاسٹر ہوا۔ حکومتوں نے اسٹیٹس کو (نظامِ بد) کی کمال فن کارروائی سے کرپشن اور آئین شکنی کو ’’کمپنیوں کا حکومتی نظام‘‘ قائم کرکے وہ کھلواڑ مچایا کہ تبدیلی پارٹی بھی تبدیلی کی چیخ پکار کے سوا کچھ نہ کر پائی اور اسے بھی اسٹیٹس کو کی تلخ، ترین حقیقت کو ناگزیر جانتے ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کی چادر اوڑھنی پڑی۔ اب صورتحال یوں ہے کہ سرحدیں اور داخلی کاروبار زندگی دونوں ہی خطرات و تشویش سے خالی نہیں اور گراف بھی بلند تاہم تابناک مستقبل کی امید پھر بھی ماند نہیں پڑی۔

یقیناً ملک کی موجود اقتصادی سیاسی و انتظامی صورتحال اور نچلی سطح پر بلند درجے کی عوامی بےچینی کے ساتھ گھمبیر ہے۔ اصل میں امید کی روشن کرنوں کے ساتھ پیچیدہ بھی۔ مجموعی ملکی موجود مایوس کیفیت کو ہمیں ہماگیر تجزیے او ربہتر نتائج کے لیے تیزی سے بنتی عالمی اور علاقائی صورت گری سے جوڑنا ہوگا۔ موجود ملکی جامد پوٹینشل، ہماری برقرار روایتی جیو پولیٹکل میں مزید اضافے کے ساتھ ساتھ نئی بنی اور بڑھتی جیو اکنامک پوزیشن دو روایتی اور سخت متنازعہ پارلیمانی قوتوں کے ساتھ (ادھوری اور خامیوں کے ساتھ ہی سہی) کچھ مطلوب بنیادی لازموں کی حامل متبادل تیسری قومی پارلیمانی قوت ملکی اقتصادی سماجی و سیاسی مایوس کن صورتحال کے برعکس ہماری حوصلہ افزا ایٹمی ملکی حیثیت اور روایتی دفاع و سلامتی کی آزمودہ اطمینان بخش پوزیشن، موجودہ حکومت کا پالیسی اور قانونی سازی کی طرف آنا ضمنی انتخابات میں اپوزیشن کی کامیابیاں اور خیبر پختونخوا میں شفاف بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی قیادت کا اپنی غلطیوں کا کھل کر اعتراف اور شفاف انتخابی عمل، ایکسپورٹ، بیرون ملک آباد پاکستانیوں کی طرف سے زرمبادلہ کی ترسیل اور ٹیکسٹائل اور کنسٹرکشن جیسی بڑی صنعتوں کی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ اور بیرونِ ملک پاکستان کی بڑھتی اہمیت اور دوستوں سے باہمی مفادات کے حصول کے بڑھتے ہوئے امکانات واقعات، گرتے پڑتے اٹھتے بڑھتے ملکی مستقبل بہتر ہوتے چلے جانے کے واضح اشارے ہیں۔

اس پس منظر میں ملکی ڈگمگائی اقتصادیات، سیاسی انتشار اور سماجی بےچینی، شدت سے اس امر کی متقاضی ہو گئی ہے کہ ان تینوں بے قابو سے ہوتے قومی مسائل پر سائینٹفک پروپاکستان تحقیق کی جائے اور نتائج کی روشنی میں ہر تین بڑے شعبہ ہائے زندگی میں ترقیاتی عمل کا آغاز کیا جائے۔ سوال ہے کہ یہ کون کرے؟ اس میں کوئی رکاوٹ تو نہیں؟ کیا حکومتی کمیٹی ہے کہ وہ یہ عظیم قومی اور یقیناً نتیجہ خیز کار خیز انجام دے سکے؟ علم و تحقیق کے حوالے سے ملکی یونیورسٹیوں ان سے الگ دوسرے تحقیقاتی اداروں اور تھنک ٹینکس کی اتنی استعداد ہے کہ وہ مطلوب معیار کی تعلیم و تحقیق کا انتظامی ڈھانچہ اور انفراسٹرکچر تیار کر سکیں۔ اور موجودہ حالات میں تبدیلی و اضافے (ایکسٹینشن) کو ممکن بنا کر تحقیق اور متعلقہ تعلیم کے نہ صرف بلا رکاوٹ عمل (SUSTAINABLE PROCESS) کا آغاز کریں جس کے نتیجے میں ہر تین جہت کے جملہ شعبوں میں ایسا ہی ترقی جاریہ کا عمل جاری رہ سکے؟

ناچیز کے متذکرہ سوالات کے مختصر جواب کچھ یوں ہیں:

جی ہاں! اس کار عظیم کا آغاز مختصر ’’نیشنل پالیسی آف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ‘‘ کی تشکیل متفقہ منظوری اور اطلاق و اختیار سے ہوگا۔ ایسی پالیسی جس کی روشنی میں عملی اقدامات بشکل قانون و ادارہ سازی کو مکمل آئینی تحفظ حاصل ہو اتنا کہ آنے والی حکومتیں پالیسی ہی کی روشنی میں وسعت تو لا سکیں اور معیار بڑھا سکیں لیکن قانوناً اس میں جملہ انواع کی رکاوٹ ڈالنے کے دروازے بند کردیئے جائیں۔ اس کے فنانس کو بھی بجٹ میں مختص فیصد کے حوالے سے قانوناً تحفظ حاصل ہونا چاہئے۔جہاں تک ماہرین، پروفیشنلز اور ورک فورس کا تعلق ہے وہ الحمدللہ بکھری قوم کے پاس مکمل موجود ہے لیکن غیر منظم بیرونِ ملک اور کونے لگا مایوس، اس کو پہلے تو ملک میں منظم کیا جائے پھر بیرونِ ملک متعلقہ ماہرین پاکستانیوں کو ترغیبات کے ساتھ مقررہ مدت کے لیے پاکستان آنے کی دعوت کے ساتھ وہیں آباد پاکستانی ٹیکنو کریٹس، پروفیسرز، پی ایچ ڈی اسکالرز اور ہائی فائی پروفیشنلز کو ان کی سہولت کے مطابق آن لائن انگیج کرنے کے بہت ممکن اقدامات پر برین اسٹارمنگ کی جائے۔ دوست ملکوں سے باہمی مفاد پر تعاون کے پیکیج بنانا لازم ہو گا۔ اس حوالے سے ملکی پبلک یونیورسٹیاں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ملک کی بڑی مالی استعداد کی یونیورسٹیوں کو قانوناً پابند کر دیا جائے کہ وہ اپنی بظاہر کمرشل نیچر کی آمدن کا ایک مناسب فیصد ایسے قومی تحقیقاتی عمل کے لیے مختص کرنے کی قانوناً پابند ہوں۔ وما علینا الالبلاغ