قانون، قبضہ گروپ اور نااہلیت؟

January 22, 2022

ہماری اعلیٰ و سپریم جوڈیشری نے حالیہ دنوں قبضہ گروپوں یا تجاوزات کے خلاف چند قابل قدر فیصلے کیے ہیں، ان کی بدولت یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ آئندہ کیلئے قبضہ گروپ کمزور پڑ جائیں گے یا تجاوزات رک جائیں گی البتہ ان اقدامات سے قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ضرور ہو گی۔

بچوں کے پارک کی جگہ پر مسجد کی تعمیر سے متعلقہ فیصلے کا جائزہ لینے سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کی تحسین کی جانی چاہئے جس میں طاقتوروں کے ہزاروں ایکڑ زمین پر دعوے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا گیا ہے۔

کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ راول ڈیم کنارے بنائے گئے کشتی رانی کلب کو گرا دیا جائے، اس طرح مونال ریسٹورنٹ اور مارگلہ گرینز گالف کلب کی غیر قانونی تعمیرات کو مسمارکرتے ہوئے نیشنل پارک کی زمین کو بحال کر دیا جائے۔ آج اگر کوئی محکمہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی طاقتور حیثیت انگریز دور ہی کی طرح ہے تو اسے یہ ضرور ملاحظہ فرما لینا چاہئے کہ بیچ میں آزادی نام کا کوئی واقعہ بھی پیش آیا تھا لہٰذاآج ملک کو انہی استعماری سوچوں اور ضابطوں کی مطابقت میں چلانے پر اصرار درست نہیں۔

اب پاکستان بہرحال آئینی اور قانونی طور پر ایک جمہوری مملکت ہے جس کا مالک کوئی ادارہ یا محکمہ نہیں اس ملک میں بسنے والے بائیس کروڑ عوام ہیں جو اپنی منشاء کا اظہار منتخب پارلیمینٹ کے ذریعے کرتے ہیں، جو آئین کی ماں اور قانون کا منبع ہے۔ اس آئینی ریاست میں سپریم جوڈیشری کا کردار آئین و قانون کی چوکیدار ی کا ہے جو بھی قانون یا قانونی شقوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو گا عدالتیں اس کے خلاف ایکشن لینے کی پابند ہوں گی۔

1947ء میں آزادی کے ساتھ ہی مختلف النوع قبضہ گروپوں نے سب سے پہلے ہندوئوں اور سکھوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں پر شتابی سے قبضے جمائے اور مابعد کلیمز اور الاٹمنٹوں کے ذریعے جس کرپشن اور لوٹ مار کا آغاز کیا اس کی کوئی حد نہ تھی جو جتنا طاقتور تھا اس نے حصہ بقدر جثہ حاصل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، ان لوگوں کی قبضہ گیری دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوا کہ گویا انہوں نے پارٹیشن کروائی ہی اسی چھینا چھپٹی کیلئے تھی۔

درویش نے برسوں تک مختلف اضلاع میں تجاوزات کے خلاف کام کیا ہے اور سچائی یہ ہے کہ پبلک لینڈ کو ہڑپ کرنے کا سب سے مجرب اور کامیاب نسخہ یہ ہے کہ کسی ایک سرے پر مسجد،مزار یا دینی مدرسہ تعمیر کر دو ،اُس کے بعد کس کی مجال ہے کہ اُس تعمیر کیخلاف لب کشائی کی جرأت کر سکے؟

اگر کسی کو اس حوالے سے شبہات ہیں تو وہ قیام پاکستان کے وقت موجود مدارس، مساجد اور مزارات کی تفصیلات اکٹھی کرے اور ایسے مقامات کی موجودہ تفصیلات سے اُن کا تقابل کرلے واضح ہوجائے گا کہ آبادی جتنی بھی زیادہ بڑھی ہے دیگر مقدسات اس سے کہیں زیادہ آگے رہے ہیں۔

اس کے بعد دوسری فہرست بنائیں کہ ان مقدسات میں کتنے ہیں جو قانونی طور پرزمینیں خریدکر تعمیر کیے گئے ہیں اور کتنے ہیں جو جائے غصب پر تعمیر ہوئے ہیں۔ اس کے بعد اگر آپ یہ سوچیں گے کہ ان تجاوزات کو ختم کرنے کیلئے آپ نے قانون کی مدد لینی ہے تو آپ کو شاید مایوسی کے سوا کچھ نہ ملے کہ اگر قانون میں جان ہوتی تو تجاوزات اور قبضے ہو ہی کیسے سکتے تھے؟

ظاہری طور پر آپ بات کسی سے بھی کریں کوئی یہ نہیں کہے گا کہ قبضہ گیری کوئی اچھی چیز ہے ہر کوئی یہی کہے گا کہ چھینی گئی یا ناجائز طور پر حاصل کردہ زمین پر مسجد یا مزار کی تعمیر ناجائز ہے لیکن ساتھ ہی کچھ لوگ یہ بھی فرمائیں گے کہ اگر کسی جگہ ایک مرتبہ مسجد بن گئی تو پھر وہ مسجد ہی رہے گی اگر باامر مجبوری اسے مسمار کرنا پڑے تو کسی اور جگہ اتنی ہی زمین پر مسجد تعمیر کرنا لازم ہو گا۔

نسلہ ٹاور کے جن غریب لوگوں نے اپنی جمع پونجی جھونک کر وہ گھر خریدے تھے انہیں یوں بے گھر کرنا انسانی حقوق کے کسی ضابطے کی روشنی میں بھی درست نہ تھا۔بہر حال اب یہ قانون کا امتحان ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ نسلہ ٹاور کے بعد طارق روڈ پر واقع مسجد کے ضمن میں دیے جانے والے فیصلے پر عمل کسی روپ میں سامنے آتا ہے۔