کھاد کا بحران، کسان پریشان

January 26, 2022

کسان کسی بھی قوم کے وہ محسن ہوتے ہیں جو اُس کے لیے خوراک کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔ جھلسا دینے والی گرمی ہو یا جما دینے والی ٹھنڈک، یہ ہر طرح کے موسم کی شدت کو برداشت کرتے ہوئے ہماری غذائی اجناس کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ اِن کی محنت سے فائدہ اٹھانے والے لوگ تو معاشی ترقی کے بامِ عروج پر پہنچ جاتے ہیں لیکن بےچارے کسان اکثر و بیشتر معاشی ترقی کے سفر میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بھی یہی چلن ہے۔ آئے روز نِت نئی مشکلات کسانوں کی منتظر رہتی ہیں۔ اِن دِنوں پنجاب کے کسانوں اور کاشت کاروں کو کھاد کے حصول میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ چینی، آٹے اور گندم بحران کے بعد اب ملک میں کھاد کا بحران پیدا ہو چکا ہے اور کھاد فروخت کرنے والے ڈیلر اِس وقت مافیا بنے بیٹھے ہیں۔ پنجاب میں یوریا کھاد کی ایک بوری کی سرکاری قیمت 1768روپے ہے لیکن کسان یہی بوری 2200سے 2500روپے تک میں خریدنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں ربیع کی فصل کی کاشت مکمل ہو چکی ہے لیکن کھاد کی عدم دستیابی یا کمی کے باعث کاشت کار شدید پریشانی میں مبتلا ہیں کہ فصلوں کو بروقت کھاد نے دینے کی وجہ سے اُنہیں نقصان پہنچ رہا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن تاحال زرعی اصلاحات سے محروم ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کا نعرہ ملک میں کسان کی ترقی اور زراعت کا فروغ ہے لیکن وہ تاحال اِس نعرے کو عملی شکل دینے میں ناکام نظر آتی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اپنی ضلعی پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال کرے، جو اصل قیمت پر کھاد کی فروخت کو یقینی بنائیں۔ پاکستان کو زرعی اجناس کی ضروریات کے حوالے سے خودکفیل ملک بنانے کیلئے ضروری ہے کہ یہاں کے کسان کی مشکلات کم کی جائیں۔کسان خوشحال ہوگا تو پاکستان خوشحال ہوگا ۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998