امریکہ اپنے رویے پر نظرثانی کرے

February 20, 2022

امریکہ پاکستان کے درمیان تعلقات میں خرابی کی بڑی وجہ افغانستان میں پاکستان کااول اتحادی ہونا ہے جس سے اختلافات اس وقت بڑھے جب امریکہ نے اپنے پرانے آزمودہ فارمولے کے تحت پاکستان سے وہ کام لینے کی بات کی جس کا پاکستان کی طرف سے جواب نفی میں ملا تو امریکہ نے کہا، اس پر ہمارا بھی ردِعمل جلد سامنے آئے گا۔ ویسے تو جنرل ضیاء کے زمانے سے ہی امریکہ پاکستان کے تعلقات سردمہری کا شکار رہے ہیں لیکن امریکہ کو پاکستان کی ضرورت تھی اس لیے امریکہ نے سخت رویے سے اجتناب برتا، پرویز مشرف سےافغان امور کے معاملات طے کئے، اس زمانے میں امریکہ نے بہت فائدے اٹھائے، مگر پاکستان سے کئے گئے وعدے پورے نہیںکئے۔ اب امریکہ افغانستان سے اپنا انخلا مکمل کرچکا ہے لیکن اس کی روح وہیں بھٹک رہی ہے، غصہ پاکستان پر کرنا امریکہ کی عادت بن گئی ہے، حالانکہ پاکستان نے ایک اچھی تیاری کے ساتھ امریکہ کی واپسی میں اہم کردار ادا کیا، بغیر کسی مزاحمت اور خوں ریزی کے امریکہ کسی جانی و مالی نقصان سے بچتے ہوئے کابل سے نکل گیا۔ کابل سے نکلنے کے بعد اب مسلسل امریکہ کی جانب سے نت نئی پابندیوں کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ امریکہ کی سمجھ میں یہ بات اب تک نہیں آرہی کہ کل اسے جب پاکستان سے مسئلہ افغانستان اور چین کے حوالے سے بات کرنے کی ضرورت پڑے گی تو وہ کیا کرے گا؟ یہ اور بات ہے کہ امریکہ کو اپنی بات منوانے کے گر آتے ہیں لیکن اب دنیا بدل گئی ہے، اب نت نئے انداز سے باہمی شراکت داری کے ساتھ معاہدے ہوتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ دھونس سے اب اپنے کام نیپال جیسے ملک سے کرانے کے قابل بھی نہیں ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان واقعی جنگ ہوسکتی ہے، ویسے چین کے ساتھ امریکہ کےبراہِ راست جنگ کے آثار فی الحال نمایاں نہیں ہیں۔ امریکہ ابھی اس حوالے سےاپنے اتحادی تلاش کررہا ہے، امریکی حکام کی روش سے پاکستان سمیت کئی یورپی ممالک واقف ہیں۔ امریکہ کے حکام کا رویہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ہمیشہ ناروا رہا ہے۔ جرمنی اس کی ایک مثال ہے۔ جرمن حکام نے کہا، کابل کے انخلا کے بارے میں ہمیں مطلع نہیں کیا گیا۔ ادھر طالبان کے ساتھ بھی دوحہ میں امریکیوں نے قطر حکام کے ساتھ مل کر جو معاہدے کئے اس پر کہیں عمل نہیں ہوا بلکہ امریکہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں رکاوٹ بن چکا ہے، امریکہ کی سیاست کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ امریکی سیاسی اور عسکری ادارے بیس تیس سال آگے کے بارے میں سوچتے ہیں، جیسا کہ افغانستان کے بارے میں کہتے ہیں، امریکہ نے کبھی60ء کی دہائی میں سوچا تھا کہ وہاں کیا کرنا ہے، اس نے اپنا ٹارگٹ بھی ظاہر نہیں ہونے دیا، کہتے ہیں کہ ستر کی دہائی میں بھٹو کو کہیں سے اطلاع ملی تھی کہ امریکہ سوویت یونین جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ اور بعد ازاں ایسے حالات بنتے گئے۔اس کے حالات بنتے گئے۔ افغانستان میں آئے دن قتل و غارت گری کا آغاز ہوگیا۔ روس سے لڑائی شروع ہوگئی۔ سوویت یونین بھی کابل سے نکل کر ماسکو تک رہ گیا، سو امریکہ کی منصوبہ بندی اب کیا ہے، شاید کسی کو معلوم نہ ہو لیکن یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ امریکہ اب پاکستان کو چین سے دور کرنے کے لیےحالات خراب کرنے جارہا ہے، دبائو، دھونس، دھمکیوں، بندش اور پابندیوں کی تیاریاں اب امریکہ کررہا ہے۔پاکستان نے پوری دیانتداری سے امریکہ کا ہر مقام پر ساتھ دیا۔ کیا چین، امریکہ دوستی کرانے کے باب میں امریکہ پاکستان کے کردار کوبھول گیا، ایسے بے شمار واقعات ہیں جب پاکستان نے امریکہ کا بغیر معاہدے کے ساتھ دیا، امریکہ اپنے رویے پر نظرثانی کرے۔خطے کو میدانِ جنگ نہ بنائے اور امن کے قیام کے لیے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں رکاوٹ نہ بنے خطے میں اب بھی پاکستان، افغانستان اہم ممالک ہیں جن کے بغیر امریکہ اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکتا۔